کتاب: اذکار نافعہ - صفحہ 151
ہوتا، جب کہ وہ ان دونوں[کے چھن جانے] پر میری حمد کرے۔‘‘[1]
۱۴:قرض کی ادائیگی کروانے والی تین دعائیں:
ا:امام ترمذی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے ،کہ ایک مکاتب [2]ان کے پاس آیا اور عرض کیا:’’میں حصولِ آزادی کے لیے طے شدہ رقم ادا کرنے سے عاجز آگیا ہوں ،اس لیے آپ میرے ساتھ تعاون کیجیے۔‘‘
انہوں نے فرمایا: ’’کیا میں تمہیں وہ کلمات نہ سکھا دوں ،جو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھلائے تھے؟ اگر تمہارے ذمہ جبل صیر[3] کے برابر بھی قرض ہو ، تو اللہ تعالیٰ [ان کلمات کی وجہ سے] تمہاری طرف سے اد اکر دے گا۔‘‘
(پھر) فرمایا:’’تم کہو:
[اَللّٰھُمَّ اکْفِنِيْ بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ، وَأَغْنِنِيْ بِفَضْلِکَ عَنْ سِوَاکَ۔[4]] [5]
[1] الإحسان في تقریب صحیح ابن حبان، کتاب الجنائز،باب ما جاء فی الصبر و ثواب الأمراض ، ذکر رجاء دخول الجنۃ لمن حمد اللّٰہ تعالیٰ علٰی سلب کریمتیہ إذا کان بہا ضنیناً، رقم الحدیث ۲۹۳۹،۷؍۱۹۴۔ شیخ ارناؤوط نے اس کی [سند کو حسن] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: ھامش الإحسان ۷؍۱۹۴)۔ نیز ملاحظہ ہو: کتاب عمل الیوم واللیلۃ لابن السني، ثواب من حمد اللّٰہ تعالیٰ علی ذھاب بصرہ، رقم الحدیث ۶۲۹،ص۲۲۲،۲۲۳۔
[2] (مکاتب): کچھ مال یا خدمت کے بدلے میں اپنے مالک سے آزادی حاصل کرنے کا معاہدہ کرنے والا غلام۔
[3] (جبل صیر) : ایک پہاڑ کا نام۔ (ملاحظہ ہو: النہایۃ في غریب الحدیث والأثر،مادۃ ’’صیر‘‘، ۳؍۶۶)۔
[4] [ترجمہ: ’’اے اللہ! اپنے حلال کے ساتھ اپنی حرام کردہ چیزوں سے میری کفایت فرما دیجئے اور اپنے سوا مجھے ہر شخص سے بے نیاز فرما دیجیے۔‘‘]
[5] جامع الترمذي ، أحادیث شتی من أبواب الدعوات، باب ، رقم الحدیث ۳۷۹۸، ۱۰؍۶۔۷۔ شیخ البانی نے اسے [حسن] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح سنن الترمذي ۳؍۱۸۰)۔