کتاب: اذکار نافعہ - صفحہ 126
جان بوجھ کر اصرار نہیں کرتے۔ انہی کا بدلہ ان کے رب کی طرف سے مغفرت اور جنتیں ہیں ،جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور [نیک] کام کرنے والوں کا بدلہ اچھا ہے۔‘‘] ب: استغفار کے بعض مخصوص الفاظ کے فضائل: ا: [أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ الَّذِي…… ] کی فضیلت: امام ابو داؤد نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت زید رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے ،کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’جس شخص نے کہا: [أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ الَّذِيْ لَآ إِلٰہَ إِلاَّ ھوُ الْحَيُّ الْقَیُّوْمُ[1] وَأَتُوْبُ إِلَیْہِ] [2] تو اسے معاف کر دیا جاتا ہے ، اگرچہ وہ کافروں کے ساتھ لڑائی کے وقت میدانِ جنگ ہی سے بھاگا ہوا ہو۔‘‘[3] ۲: سید الاستغفار کی فضیلت: امام بخاری نے حضرت شدادبن اوس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل کی ہے [کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا]: سید الاستغفار [4] یہ ہے، کہ[بندہ]کہے: [اَللّٰہُمَّ أَنْتَ رَبِّيْ، لَا إِلٰہَ اِلَّا أَنْتَ خَلَقْتَنِيْ ، وَأَنَا عَبْدُکَ، وَأَنَا عَلٰی
[1] (اَلْحَيُّ الْقَیُّوْمُ) دونوں الفاظ کے آخر میں زبر اور پیش ، دونوں کے ساتھ پڑھنا درُست ہے۔ [2] [ترجمہ: ’’میں اللہ تعالیٰ سے، کہ جن کے سوا کوئی معبود نہیں، [اور]ہمیشہ زندہ رہنے اور قائم رکھنے والے ہیں، سے گناہوں کی معافی طلب کرتا اور ان کے حضور توبہ کرتا ہوں۔‘‘] [3] سنن أبي داود ، تفریع أبواب الوتر،باب في الاستغفار ، رقم الحدیث ۱۵۱۴،۴؍۲۶۶۔ شیخ البانی نے اسے [صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح سنن أبي داود ۱؍۲۸۳)۔ [4] یعنی گناہ کی معافی طلب کرنے کے لیے کہنے جانے والے الفاظ میں سے اعلیٰ و افضل الفاظ۔