کتاب: اذکار نافعہ - صفحہ 114
فرماتے ہیں ،ا س کی دس خطائیں اس سے دور کی جاتی ہیں، اور اس کے دس درجات بلند کیے جاتے ہیں۔‘‘[1]
۴: فرشتوں کا درُود پڑھنا:
امام ابن ماجہ نے حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل کی ہے ،کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کوئی مسلمان مجھ پر درُود نہیں بھیجتا ،مگر فرشتے اس پر تب تک درُود بھیجتے رہتے ہیں، جب تک وہ مجھ پر درُود بھیجتا رہتا ہے ، پس بندہ اس کو تھوڑا کرے یا زیادہ[2]۔‘‘[3]
۵: دعاؤں کی قبولیت:
امام ترمذی نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے ،کہ انہوں نے بیان کیا:
’’ میں نماز پڑھ رہا تھا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما [تشریف فرما تھے] ۔ جب میں بیٹھا، تو میں نے اللہ تعالیٰ کی ثنا سے [دعا کی] ابتدا کی ، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درُود پڑھا، پھر اپنے لیے دعا کی۔ [یہ دیکھ کر]نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تم سوال کرو ، تمہیں عطا کیا جائے گا ، تم سوال کرو، تمہیں عطا کیا جائے گا۔‘‘[4]
[1] سنن النسائي،کتاب السہو، باب الفضل في الصلاۃ علی النبي صلي الله عليه وسلم ، ۳؍۵۰۔ شیخ البانی نے اسے [صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح سنن النسائي ۱؍۲۷۸)۔
[2] یعنی بندہ اپنے بارے میں خود فیصلہ کرے ،کہ وہ مجھ پر تھوڑا درُود بھیج کر فرشتوں کا تھوڑا درُود حاصل کرنا چاہتا ہے، یا مجھ پر زیادہ درُود بھیج کر ان کا زیادہ درُود حاصل کرنا چاہتا ہے۔
[3] سنن ابن ماجہ ، أبواب إقامۃ الصلاۃ،باب الصلاۃ علی النبي صلي الله عليه وسلم ،رقم الحدیث ۸۹۴، ۱؍۱۶۴۔ شیخ البانی نے اسے [حسن] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح سنن ابن ماجہ ۱؍۱۵۰)۔
[4] صحیح سنن الترمذي، باب الثناء علی اللّٰہ والصلاۃ علی النبي صلي الله عليه وسلم قبل الدعاء، رقم الحدیث ۴۸۶۔ ۵۹۸،۱؍۱۸۴۔ شیخ البانی نے اسے [حسن صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق۱؍۱۸۴)۔