کتاب: عظیم اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین - صفحہ 54
بے شک ایک نیک بیوی اور سمجھ دار خاتون ایسی ہی ہوتی ہے، جو اپنے نیکو کار خاوند کے شانہ بشانہ کھڑی ہوکر اس کی تائید کرتی ہے اور اپنے قول و فعل سے اپنے نیکو کار خاوند کی معین و مددگار بنتی ہے۔ اس واقعہ کے بعد جنابِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کی وادی میں ہر چھوٹے بڑے، آزاد غلام، آقا اور محکوم سب کو توحید کی دعوت دینا شروع کر دی۔ صدیوں سے بتوں کی پرستش کی عادی قوم کے لیے ایک خدا کی عبادت کی دعوت کسی صورت قابل قبول نہ تھی اس لیے قوم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر طرح سے ستایا، اور اس ایذاء رسانی میں اپنے پرائیوں ، قریبی رشتہ دار حتی کہ خاندان کے لوگوں میں سے بھی کوئی پیچھے نہ رہا۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے پناہ جسمانی اور روحانی اذیتیں دیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی وادی میں لوگوں کو ایمان کی دعوت دیتے رہے۔ یوں تو ایسے واقعات کا شمار نہیں لیکن ہم ایک اہم ترین واقعہ ذکر کرتے ہیں جس کو امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے کہ سیّدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے سیّدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ مشرکین مکہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ کب ستایا؟ کیا آپ ایسا کوئی واقعہ ہمیں ذکر کریں گے تو فرمانے لگے: ’’ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے شمالی گوشے میں جو حطیم میں داخل ہے (جس کو حجر کعبہ بھی کہتے ہیں ) نماز ادا فرما رہے تھے کہ اچانک بد بخت عقبہ بن ابی معیط ادھر آنکلا۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں مشغول دیکھا تو فورًا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء دینے کا ارادہ کرلیا کہ یہ موقعہ اس کی دانست میں غنیمت تھا۔ چنانچہ اس نا ہنجار نے اپنی چادر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گلے میں ڈال کر اس کو نہایت سختی کے ساتھ بل دیا۔ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گلا گھٹ کر رہ گیا۔ یہ منظر دیکھ کر سیّدنا صدیقِ اکبر اس بد بخت کی طرف مڑے اور نہایت دلیری اور طیش کے ساتھ اس منحوس کے کندھے پکڑ کر زور سے دھکا دیا اور اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہٹایا، پھر نہایت درد سے فرمایا: ’’کیا تم لوگ ایک ایسے شخص کو جان سے