کتاب: عظیم اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین - صفحہ 45
ہِیَ اَوْسَعُ لِیْ، اَعُوْذُ بِنُوْرِ وَجْھِکَ الَّذِیْ اَشَرَقَتْ لَہُ الظُّلُمَاتُ، وَصَلُحَ عَلَیْہِ اَمْرُ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃُ مِنْ اَنْ یَّنْزِلَ بِیْ غَضَبکَ اَوْ یَحِلَّ عَلَیَّ سَخَطُکَ، لَکَ الْعُتْبَی حَتّٰی تَرْضَی وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِکَ۔))[1] ’’اے اللہ! میں تجھ سے اپنی کمزوری اور تدبیر کی کمی اور لوگوں کی بے توقیری کی شکایت کرتا ہوں ۔ اے ارحم الرحمین! تو کمزوروں کا خاص طور پر مربی اور میرا پروردگار (مددگار) ہے، تو مجھے کس کے سپرد کرے گا؟ کسی دشمن کے جو مجھے دیکھ کر ترش رو اور غضب ناک ہوتا ہے؟ یا کسی قریبی (دوست) کے جس کو تو میرے امور کا مالک بنائے۔ اگر تو مجھ سے ناراض نہ ہو تو پھر مجھے کسی کی بھی پرواہ نہیں ۔ مگر تیری عافیت اور سلامتی میرے لیے باعث صد سہولت ہے۔ میں
[1] یہ دعا ’’دعائے طائف‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس دعا کا پس منظر یہ ہے کہ جب ابو طالب بھی انتقال کرگئے تو کفار مکہ کی جرأت اور بڑھ گئی اور اب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے سے بھی زیادہ ستانے لگے۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر آپ اس امید پر طائف کی طرف عازم سفر ہوئے کہ شاید وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت وحمایت کریں ۔ مگر افسوس کہ ان لوگوں نے کفار مکہ سے بھی زیادہ بد سلوکی کی اور وہاں کے نادانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس قدر پتھر برسائے کہ قدم مبارک خون سے رنگین ہوگئے۔ اس سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے جو نہایت بے قراری سے ایک ایک پتھر کے آگے آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے بچانے کی کوشش کر رہے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غموں سے رنجور اور زخموں سے چور مکہ لوٹ آئے۔ اسی دوران ایک جگہ سکون کی ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی یہ مشہور دعا مانگی جو کتب سیرت میں مذکور اور معروف ہے۔ دیکھیں ’’السیرۃ النبویۃ لابن کثیر: ۲/۱۵۰‘‘ اور ’’زادالمعاد لابن القیم: ۳/۲۰‘‘ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے ’’الجامع الصغیر‘‘ میں یہ دعا نقل کرکے اسے طبرانی کی طرف منسوب کرکے ’’حسن‘‘ کہا ہے۔ اور طبرانی نے یہ دعا سیّدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔ حافظ ہیثمی ’’المجمع‘‘ (۶/۳۵) میں لکھتے ہیں : اس روایت کی اسناد میں ابن اسحاق ہے جو مدلس ہے لیکن ثقہ ہے۔ جب کہ باقی کے رواۃ بھی ثقہ ہیں ۔ بعض لوگوں نے جیسے علامہ البانی رحمہ اللہ وغیرہ نے اس قصہ کو ابن اسحاق کے عنعنہ کی وجہ سے ’’سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ، رقم: ۲۹۳۳‘‘ میں ضعیف کہا ہے۔ لیکن صویانی نے ’’السیرۃ النبویۃ الصحیحہ، ص: ۱۵۸‘‘ میں یہ کہا ہے کہ: ابن اسحاق کی مذکورہ معنعن حدیث دیگر شواہد کی بنا پر قوی ہے… اسی طرح ابراہیم علی نے بھی ’’صحیح السیرۃ، ص: ۹۸‘‘ پر اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ واللہ اعلم