کتاب: عظیم اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین - صفحہ 44
’’تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ سب سے اچھا ہے اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ تم سب سے اچھا ہوں ۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بلند اخلاق کی خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خالق ومالک نے گواہی دی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ﴾ (القلم: ۴)
’’اور اخلاق تمہارے بہت بلند ہیں ۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں بے پناہ تکلیفیں اور اذیتیں اٹھائی ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑوں جیسے ستم اٹھائے اور اف تک نہ کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قول، فعل غرض ہر طرح سے ستایا، جنون کی تہمت لگائی، جادوگر کہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ کا بہتان باندھا، جھٹلایا اور جھوٹا کہا چنانچہ کفار مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں یہ دل آزار بات کہی: ’’یہ تو جادوگر ہے جھوٹا۔‘‘
جنگ احد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کے دو دانت شہید ہوگئے، رخِ انور پر زخم آیا اور خون بہنے لگا، اپنی ہی قوم کے لوگوں نے وطن سے بے وطن ہونے پر مجبور کر دیا جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرطِ غم اور صدمۂ جدائی سے آبدیدہ ہوگئے۔ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب کچھ چھین کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تہی دست کر دیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اپنے رب کی توحید کی دعوت دیتے رہے، اپنے دین کا دفاع کرتے رہے۔ اور اپنے ہر دکھ درد، حزن وملال اور غم ونادوہ کی شکایت کی تو صرف اپنے رب سے کی۔ چنانچہ طائف کے سفر میں بے پناہ تکالیف سہنے کے بعد واپسی پر اپنے رب کے حضور سے فریاد کی۔
((اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَشْکُوْ اِلَیْکَ ضُعْفَ قُوَّتِیْ وَقِلَّۃَ حِیْلَتِیْ وَھَوَانِیْ عَلَی النَّاسِ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ، اَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ وَاَنْتَ رَبِّیْ، اِلٰی مَنْ تَکِلْنِیْ؟ اِلَی عَدُوِّ یَتَجَھَّمُنِیْ؟ اَمْ اِلَی قَرِیْبٍ مَلَّکْتَہُ اَمْرِیْ؟ اِنْ لَمْ یَکُنْ بِکَ عَلَیَّ غَضَبٌ فَلَا اُبَالِیْ، وَلٰکِنَّ عَافِیَتَکَ