کتاب: عظیم اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین - صفحہ 42
تم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے کہاں چلے گئے… آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو یہ فرماتے ہیں :
((اَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ عَبْدُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ، وَاللّٰہِ مَا اُحِبُّ اَنْ تَرْفَعُوْنِیْ فَوقَ مَنْزِلَتِیَ الَّتِیْ اَنْزَلَنِیَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ)) [1]
’’میں محمد بن عبداللہ، اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں اللہ کی قسم! مجھے یہ بات پسند نہیں کہ تم مجھے میرے اس درجہ سے زیادہ بلند کرو جس پر رب تعالیٰ عزوجل نے مجھے اتارا ہے۔‘‘
ایک دفعہ کسی نے یہ کہہ دیا کہ ’’جو اللہ چاہے اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں ‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سرزنش کرتے ہوئے فرمایا:
((اَجَعَلْتَنِیْ لِلّٰہِ نِدًّا؟ قُلْ مَاشَائَ اللّٰہُ وَحْدَہُ)) [2]
’’کیا تم نے مجھے اللہ کے (ایک) برابر کر دیا؟ (بلکہ یوں ) کہو کہ ایک اکیلا اللہ جو چاہے۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت تھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ ارشاد فرماتے تو ہمہ تن گوش ہوکر سنتے، کوئی حکم ارشاد فرماتے تو اس کو بجا لانے کے لیے لپکتے۔ سیّدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سب سے زیادہ محبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی۔[3]
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت وملاقات اور صحبت ومجالست کا شرف نصیب ہوا۔ چنانچہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت وتوقیر اور تعظیم وتکریم کی انتہا کردی۔ یہ وہ شرافت تھی جو نہ ان سے پہلے کے لوگوں کو نصیب ہوئی اور نہ بعد والوں کو۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر سیّدنا عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہما قریش مکہ کی طرف سے گفتگو کرنے آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حسن عقیدت اور صدقِ اخلاص کا ایسا
[1] مسند احمد، رقم: ۱۳۰۴۱۔
[2] رواہ البخاری فی الادب المفرد، رقم الحدیث: ۷۸۳۔
[3] رواہ الترمذی فی سننہ، رقم الحدیث: ۲۷۵۴۔ وقال ہذا حدیث صحیح حسن غریب من ہذا الوجہ وصححہ الالبانی فی صحیح الترمذی۔