کتاب: عظیم اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین - صفحہ 41
یَمْضِی الْہِلَالَ مَعَ الْہِلَالِ وَلَا یُرٰی اِلَّا تَمِیْرَاتُ لَدَیْہِ وَ مَائُ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کی ہر نعمت سے اس کو حقیر جانتے ہوئے اور اس سے بچتے ہوئے اپنے رب کے حضور عاجزی کرتے ہوئے اور آخرت کی تیاری کرتے ہوئے جہاں نعمتیں ہی نعمتیں ہیں ، زہد اختیار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دنیا کے سب خزانوں کی چابیاں پیش کی گئیں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کمال استغناء کے ساتھ ردّ فرما دیا اور خود بھوکے رہے تاکہ فقیروں اور تنگدستوں کا پیٹ بھرے، آپ کے کاشانۂ اقدس پر دو دو چاند گزر جاتے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور سوائے چند کھجوروں اور پانی کے شکم سیری کا اور کوئی سامان دکھائی نہ دیتا تھا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائل و شمائل کے عین مطابق تھے اس لیے اپنی شان میں اونچے اونچے الفاظ، القابات اور اعزازات ہرگز پسند نہ فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت مبارک پر تصنع، بناوٹ اور بنا بنا کے، چبا چبا کے الفاظ ادا کرنا بے حد گراں گزرتا تھا۔ ایک دفعہ چند لوگوں نے خدمت اقدس میں حاضر ہوکر یہ عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول! اے ہم میں سب سے بہتر اور ہم میں سب سے بہتر کے بیٹے! اے ہمارے سردار اور ہمارے سردار کے بیٹے!‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگو! اپنی بات کہو (اور جس کام کے لیے آئے ہو، وہ کہو۔ ہماری یوں تعریف نہ کرو) اور (ایسی مبالغہ آمیز باتیں کرنے میں کہیں ) شیطان تم لوگوں کو اپنے جال میں پھنسا نہ لے‘‘ (اور سچی باتیں کرتے کرتے کہیں تم سے جھوٹی باتیں نہ کہلوانے لگے)۔ [1] اے غلو کرنے والو! کہاں ہو تم لوگ؟ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں مبالغہ کرنے والو! کدھر ہو؟ کہاں ہیں وہ لوگ جو جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ صفات بیان کرتے ہیں (جیسے عالم الغیب ہونا، مختارِ کل ہونا، حاضر و ناظر ہونا وغیرہ) جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں ہیں ہی نہیں ؟
[1] مسند احمد، رقم: ۱۳۰۴۱ وصححہ الا لبانی فی غایۃ الحرام فی تخریج احادیث الحلال والحرام: ۹۹۔