کتاب: عظیم اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین - صفحہ 40
میرے بارے میں کچھ کہنا ہی ہے تو) کہو کہ (میں ) اللہ کا بندہ اور اس کا رسول (ہوں )۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا سے منہ موڑ لیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ہر عمل آخرت کے لیے تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے:
((مَالِیْ وَلِلدُّنْیَا! مَا اَنَا وَالدُّنْیَا اِلاَّ کَرَاکِبٍنِ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَۃٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَکَھَا)) [1]
’’بھلا میرا دنیا سے کیا واسطہ! میری اور دنیا کی مثال تو اس سوار (مسافر) کی سی ہے جو (دورانِ سفر ذرا دیر کو سستانے کے لیے) کسی درخت کے سائے تلے رک گیا پھر اسے چھوڑ کر (اپنی منزل کی طرف) چل دیا۔‘‘
سردارِ دو جہاں پر دو دو ماہ کے چاند گزر جاتے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی گھر میں چولہا نہ جلتا کیونکہ اتنا سامانِ خورد ونوش ہی میسر نہ ہوتا تھا جسے آگ پر پکا کر کھانے کی نوبت آتی۔ کئی کئی رات بھوکے سو جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ گھر والوں کے لیے بھی رات کے کھانے کے لیے کچھ نہ ہوتا تھا۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ’’میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دن بھر مارے بھوک کمر جھکائے رہے کہ (اس دن) آپ کو پیٹ بھرنے کے لیے ایک ردّی کھجور بھی میسر نہ تھی۔‘‘ [2]
زَہَدَ الدُّنَا مُتَرَفِّعًا مُتَوَاضِعًا
وَسَمَالآ خرۃٍ بہَا النعمائُ
جَآئَ تْ مَفَاتِیْحُ الْکُنُوْزِ فَرَدَّھَا
وَمَضٰی یَجُوْعُ لِتَشْبَعَ الْفُقَرَائُ
[1] جامع الترمذی: ۲۳۷۷۔ امام ترمذی اس حدیث کو روایت کرکے اسے ’’حدیث حسن صحیح‘‘ کہتے ہیں ۔ علامہ البانی نے ’’صحیح الترمذی‘‘ میں (رقم: ۲۳۷۷ میں) اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ صحیح الجامع، رقم: ۵۶۶۷۔
[2] صحیح مسلم، رقم: ۲۹۷۸۔