کتاب: عظیم اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین - صفحہ 39
رہتے حتی کہ قدم مبارک ورم کرکے پھٹ جایا کرتے تھے۔ نماز پڑھنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہیں ٹھندی ہوتی تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کے حضور خشوع وخضوع اور خلوصِ دل کے ساتھ کھڑے ہوا کرتے تھے۔ سیّدنا عبداللہ بن شخیّر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : ’’میں خدمت رسالت میں اس وقت حاضر ہوا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رب کے حضور کھڑے نماز ادا فرما رہے تھے اور (خوف و خشیت) اور گریہ وبکا کی وجہ سے سینہ مبارک سے یوں آواز آرہی تھی جیسے ہانڈی کے اندر سے ابلنے کی آواز آتی ہے۔‘‘ [1]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ عاجز اور منکسر المزاج تھے، فقراء کے ساتھ بلا تکلف اٹھتے بیٹھتے، مسکینوں اور لاچاروں کے ساتھ مل کر کھانا کھا لیتے، اپنا جوتا خود سی لیتے، گھر والوں کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹا دیتے، خدمت گاروں کو عار نہ دلاتے اور نہ انہیں ڈانٹتے ڈپٹتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادمِ خاص سیّدنا انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :
’’میں نے جناب وساطت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سال تک خدمت کی۔ اللہ کی قسم! (اس طویل عرصہ میں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی مجھے اُف تک نہ کہا۔ اور (اگر میں کوئی کام غلط کر بیٹھتا تو) کبھی مجھے یہ نہ فرمایا کہ یہ کیوں کیا؟ اور (اگر کسی کام کے کرنے میں کوتاہی کی تو کبھی مجھے یہ نہ فرمایا کہ) تم نے ایسا کیوں نہ کیا؟‘‘ [2]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے بوڑھوں کا احترام فرماتے، چھوٹوں کے ساتھ تواضع اور شفقت کے ساتھ پیش آتے، فخر واتراہٹ کبھی پاس بھی نہ پھٹکی تھی۔ اور نہ کبھی تکبر اور اکڑ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل ودماغ میں راہ پاسکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو یہ فرمایا کرتے تھے۔
((اَنَا عَبْدٌ فَقُوْلُوْا عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ)) [3]
’’(بے شک) میں (بھی دوسروں کی طرح ان کا) بندہ ہوں ۔ پس (اگر تم نے
[1] سنن ابی داؤد، حدیث رقم: ۹۰۶۔
[2] متفق علیہ (البخاری: ۵۶۹۱۔ مسلم: ۲۳۰۹) اور یہ لفظ مسلم کے ہیں ۔
[3] صحیح البخاری، ۳۲۶۱۔