کتاب: عظیم اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین - صفحہ 38
’’اگرچہ آپ (دوسروں کی طرح) بشر ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفات میں کامل ترین (انسان) ہیں گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و صورت کا پیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسب منشا تیار کیا گیا ہے۔ رخِ انور چودہویں کے چاند کی طرح منور اور روشن ہے اور نقوش میں ملاحت ہے۔ لبوں سے الفاظ موتیوں کی طرح جھڑتے ہیں اور خود لب مبارک (اور ان سے نکلنے والے الفاظ بیمار دلوں کے لیے) شفا ہیں ۔‘‘ رب تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت مبعوث فرمایا جب رب کی دھرتی وثنیت کی عبادت اور بت پرستی سے لتھڑی ہوئی تھی، کاہنوں کی باتوں کے چرچے تھے، خونریزی اور قتل وغارت کا بازار گرم، رشتے ناتوں کو تار عنکبوت کی طرح توڑا جارہا تھا۔ ان گھمبیر حالات اور ظلمت و تاریا کی فضا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوتِ حق کے چراغ روشن کیے، لوگوں کو توحید، عبادت اور ہر خیر کو طرف بلایا۔ اور اس راہ کی ہر تکلیف اور اذیت کو سہا، لوگوں نے جھٹلایا، منہ پھیرا، اعراض کیا، اور پیٹھ پھیر لی۔ پھر ستم بالائے ستم ہے کہ ہر طرح سے ستایا، پر آپ نے ان سب ایذاؤں پر صبر فرمایا اور کمال صبر فرمایا۔ اس صبر جمیل پر رب تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر جمیل بلند کیا، آپ کا رتبہ اونچا کیا، رب تعالیٰ نے آپ کو غالب معجزے عطا فرمائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دلائل واضح اور روشن تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رعب عطا فرما کر دشمنوں پر غالب اور مظفر ومنصور کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے پچھلے گناہوں کو معاف کر دیا گیا، روزِ قیامت سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو ہی کھولا جائے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کھڑے ہوں گے، اور اس ہولناک دن رب کے حضور سب سے پہلے سفارش کرنے کی توفیق و عنایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی اور ارزاں فرمائی جائے گی۔ جب میدانِ حشر قائم ہو جائے گا تو سب سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی ماننے والے اور سچے پیروکار سامنے آئیں گے۔ سب سے پہلے جنت کے دروازے پر دستک دینے کا اعزاز بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی مرحمت فرمایا جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رب تعالیٰ کے شکر گزار بندے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر عبادت میں کھڑے