کتاب: عظیم اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین - صفحہ 36
بیت نبوت کے سردار رسولِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم ہم اپنی گفتگو کا آغاز اس محبوب ترین ہستی کے ذکر سے کر رہے ہیں جن کے لیے ہمارے دل مشتاق اور فرفتہ ہیں ، جن کو یاد کرکے ہمارا ظاہر و باطن پاکیزہ اور معطر ہو جاتا ہے، جن کے ذکر سے دل نرم پڑ جاتے ہیں ، ان میں رقت پیدا ہوتی ہے اور ان میں رجوع وانابت اور اطاعت و فرمانبرداری کے جذبات کروٹیں لینے لگتے ہیں اور جب بھی ان کا ذکر آتا ہے تو اہل ایمان کے قلوب ان کی زیارت کے لیے تڑپ اٹھتے ہیں اور انہیں یہ شوق دامن گیر ہوتا ہے کہ کب جنت میں جاکر ان کی زیارت سے نگاہیں ٹھنڈی ہوں گی۔ یہ ہستی رب تعالیٰ کے رسول جناب محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کے آنے کی آپ کی نبوت سے قبل ہی سب پیغمبروں نے بشارت دی، اور جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا چہار دانگ عالم میں اعلان کیا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت سے نواز دیا گیا آسمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کی حفاظت کے لیے سخت پہریداروں اور شہابِ ثاقبوں سے بھر گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا زمانہ قریب آگیا اور آفتابِ رسالت بس طلوع ہونے کو ہی تھا کہ اس کے چرچے چہار سو پھیل گئے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہاں سے بھی گزرتے شجر و حجر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سلام عرض کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘‘ کہتے ہوئے سنتے۔ [1]
[1] حجر وشجر کے سلام کرنے کا واقعہ متعدد طرق سے ثابت ہے چنانچہ یہ واقعہ ترمذی (۳۶۳۰)، دارمی (۱/۱۲) ابو نعیم (دلائل النبوۃ، ص: ۱۳۸) اور حاکم (۲/۶۲۰) نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی حدیث سے روایت کیا ہے اور علامہ البانی نے یہ واقعہ ’’سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ: ۶/۳۷۱‘‘ میں نقل کرکے اس کو صحیح کہا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ امام مسلم رحمہ اللہ نے سیّدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے روایت کیا ہے، فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں (وادیٔ) مکہ کے اس پتھر کو پہچانتا ہوں جو مجھے بعثت سے قبل سلام کیا کرتا تھا۔ میں اسے اب بھی پہچانتا ہوں ۔‘‘