کتاب: عظیم اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین - صفحہ 34
کَفَاکُمْ مِنْ عَظِیْمِ الْقَدْرِ اِنَّکُمْ مَنْ لَمْ یُصَلِّ عَلَیْکُمْ لَا صَلَاۃَ لَہٗ ’’اے رسولِ خدا کے اہل بیت! رب تعالیٰ نے اس قرآن میں جس کو اس نے نازل فرمایا ہے تم لوگوں کی محبت کو (ہم پر) فرض قرار دیا ہے۔ اور تمہاری عظیم قدر و منزلت کے لیے یہی بات کافی ہے کہ جو تم لوگوں پر درود نہیں پڑھتا اس کی نماز ہی نہیں ہوتی۔‘‘ اس تمہید کے بعد بندہ عاجز عرض کناں ہے کہ میرا یہ مختصر رسالہ حضرات اہل بیت عظام والکرام کی پاکیزہ زندگیوں کے بعض پہلوؤں کو روشن کرنے کی بابت میری جانب سے ان مقدس ہستیوں کی جناب میں نذرانۂ عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک عاجزانہ کاوش ہے۔ بے شک یہ حضرات متقیوں کے سردار اور پیغمبروں کے بعد انسانیت کا سب سے بہتر طبقہ ہیں جس کی شہادت روئے زمین کا ذرہ ذرہ اور چراغِ نیلگوں کی لا محدود وسعتیں دیتی ہیں ، ان حضرات کے جلیل القدر واقعات کی بازگشت تاریخ اسلام کے ہر ورق پر سنائی دیتی ہے اور سنائی دیتی رہے گی۔ اگر ہم یہ کہیں تو بے جانہ ہوگا کہ ان بزرگ ہستیوں کے محاسن اور خوبیاں حد شمار و قطار سے باہر ہیں ۔ یوں تو ان پاکیزہ ہستیوں کے ہم پر بے شمار حقوق ہیں جن سے سبکدوش ہونے کی ہم میں سکت نہیں ۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ ہم ان کے علمی و عملی ورثہ کو پڑھیں ، ان کی تاریخ کا مطالعہ کریں ، ان کے اقوال و افعال کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کی سچی پیروی کریں ۔ ان کو حرزِ جاں بنائیں اور ان کو اپنے لیے ایک نیک نمونہ بنائیں جس کو اپنا کر ہم دنیا و آخرت میں سچی اور حقیقی کامیابی حاصل کریں ۔ یہ بات سراسر خطا ہے کہ ہم آلِ بیت اظہار کے ساتھ محض عقیدت کا اظہار کرکے اسی پر اکتفاء کرلیں ۔ جب کہ ہماری عملی زندگیوں میں ، ہمارے اقوال و افعال میں ان حضرات کی محبت و عقیدت کی کوئی بازگشت سنائی نہ دے۔ بلکہ سچی محبت تو عاشقوں پر اطاعت و فرمانبرداری کو فرض کر دیتی ہے۔ کسی شاعر نے ایک سچے عاشق اور محب