کتاب: عظیم اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین - صفحہ 242
دوسروں کو معاف کر دینے میں بھی کوئی آپ کا ثانی نہ تھا۔ ایک دن ایک آدمی نے گفتگو کرتے ہوئے آپ پر تہمت لگا دی۔ اس پر آپ نے یہ جواب دیا: ’’اگر تو ہم ویسے ہی ہیں جیسا کہ تم کہہ رہے ہو تو ہم اللہ سے استغفار کرتے ہیں ، اگر ہم ویسے نہیں جیسا کہ تم کہہ رہے ہو تو اللہ تمہیں معاف کرے۔‘‘ یہ جواب سن کر اس آدمی نے اٹھ کر آپ کا ماتھا چوما اور کہا: ’’آپ ویسے نہیں جیسا کہ میں نے کہا ہے اللہ میری بخشش کرے۔‘‘ آپ نے بھی دعا دیتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ تمہیں بخشے‘‘ اس پر وہ آدمی بولا: ’’اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کہاں رکھے۔‘‘[1] آپ دعا بہت زیادہ مانگا کرتے تھے۔ ایک یہ دعا کثرت سے مانگتے تھے: ’’اے اللہ! مجھے میرے نفس کے حوالے نہ کرنا کہ میں اس کے آگے بے بس ہو جاؤں اور نہ مجھے مخلوق کے حوالے کرنا کہ وہ مجھے ضائع کردیں ۔‘‘ [2] آپ کا اپنی والدہ کے ساتھ بے حد حسن سلوک تھا۔ آپ اپنی والدہ کے ساتھ ایک برتن میں نہ کھاتے تھے کسی نے پوچھا کہ یوں تو آپ اپنی والدہ کے ساتھ بے حد نیک ہیں پھر ان کے ساتھ ایک برتن میں کیوں نہیں کھاتے؟ تو فرمانے لگے کہ: میں محض اس بات سے ڈرتا ہوں کہ کہیں میرا اس چیز تک مسابقت نہ کر جائے جس کی طرف میری ماں کی نظروں نے مسابقت کی تھی۔ یوں میں ان کا نافرمان نہ بن جاؤں ۔[3] سبحان اللہ! بھلا اس سے بڑھ کر بھی کوئی نیکی ہو سکتی ہے۔ مشہور شاعر فرزدق نے آپ کی شان میں یہ اشعار کہے: ’’یہ وہ ہے جس کے نشانِ قدم کو بطحا کی وادی پہچانتی ہے اور ان کو بیت اللہ اور حل و حرم سب پہچانتے ہیں ۔ قریش نے انہیں دیکھ کر یہ کہا کہ مکارمِ اخلاق اور جود وکرم ان پر ختم ہیں ۔ اگر تم انہیں جانتے ہو تو سنو! یہ ہیں اور ان کے دادا پر
[1] صفۃ الصفوۃ: ۲/۹۵۔ [2] تاریخ دمشق: ۴۱/۳۸۲۔ [3] وفیات الاعیان: ۳/۲۶۸۔