کتاب: عظیم اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین - صفحہ 241
لے جا رہا ہے۔[1] امام زین العابدین محمد بن اسامہ بن زید کی عبادت کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ کو دیکھ کر محمد رونے لگے۔ آپ نے وجہ پوچھی تو بتلایا کہ مجھ پر قرض ہے۔ پوچھا کہ کتنا ہے؟ محمد بولے کہ پندرہ ہزار دینار، تو فرمایا: آج سے وہ میرے ذمے۔[2] سبحان اللہ! امام زین العابدین کی زندگی جود و کرم اور لطف و احسان سے تعبیر تھی۔ آپ کو یہ لقب تب ہی ملا تھا جب آپ عبادت کے باغوں اور خیر کے میدانوں میں نہایت بلند مقام و مرتبہ تک پہنچے تھے۔ اے مسلمان! کیا تم نے امام زین العابدین کی طرح کسی کو فقراء اور مساکین کی اس طرح حاجات پوری کرتے دیکھا ہے۔ ابن اسحاق کہتے ہیں : مدینہ منورہ میں کچھ گھرانے ایسے بھی گزر بسر کر رہے تھے کہ انہیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ان کے سامانِ خورد ونوش کا سبب کہاں سے ہوتا ہے۔ جب امام زین العابدین کا انتقال ہوا تو ان کے گھروں میں رات کو وہ سامان پہنچنا بند ہوگیا۔ تب جاکر انہیں معلوم ہوا کہ وہ سامان تو جنابِ زین العابدین رات کے وقت ان کے گھروں میں چھوڑ جاتے تھے۔‘‘ [3] بعض لوگ تو یہاں تک کہہ اٹھے کہ: ’’ہمیں وہ خفیہ صدقہ زین العابدین کی وفات کے بعد ملنا بند ہوگیا۔‘‘[4] آپ کے مرنے کے بعد جب ایسے گھروں کو شمار کیا گیا تو وہ سو کے قریب نکلے۔ آپ بے حد ذہین اور حاضر جواب تھے۔ ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ جناب صدیق اکبر اور جنابِ عمر رضی اللہ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہوں میں کیا مرتبہ تھا؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ مبارکہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے برجستہ یہ کہا: جیسے آج ان کا مرتبہ ہے۔[5]
[1] صفۃ الصفوۃ: ۲/۹۵۔ [2] حلیۃ الاولیاء: ۳/۱۴۱۔ [3] رواہ الامام احمد فی الزہد: ۱/۱۱۶۔ [4] حلیۃ الاولیاء: ۳/۳۸۳۔ [5] تاریخ الاسلام للذہبی: ۲/۲۶۷۔