کتاب: عظیم اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین - صفحہ 240
میں ہو) وہ علم نہیں ۔ علم تو وہ ہے جو معروف ہو اور زبانِ زد خلائق ہو۔‘‘ [1] ابن جوزی صفۃ الصفوۃ میں عبدالرحمن بن حفص قرشی سے روایت کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں : ’’جب علی بن حسین وضو کرتے تھے تو ان کا رنگ زرد پڑ جاتا تھا۔ جب گھر والے اس کی وجہ پوچھتے تو فرماتے: کیا تم جانتے بھی ہو کہ میں کس کے سامنے کھڑے ہونے کا ارادہ کرتا ہوں ؟‘‘ سبحان اللہ! یہ کس قدر رب کا خوف اور اس کی خشیت تھی۔ رب تعالیٰ کی عظمت کا کس قدر اظہار تھا۔ ذرا عبداللہ بن ابی سالم کے اس قول کو سنیے، وہ فرماتے ہیں کہ: ’’علی بن حسین رضی اللہ عنہ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو بدن پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا۔‘‘ سبحان اللہ! بے شک یہ باری تعالیٰ سے بے حد ڈرنا ہے۔ اور اس بات کا استحضار ہے کہ آدمی نماز میں کس ذات کے سامنے کھڑا ہے۔ بے شک جب ایسی کیفیت کے ساتھ عبادت کی جاتی ہے تو وہ بندے اور اس کے تصرفات پر گہرا اثر چھوڑتی ہے۔ یہی وہ نماز ہے جو برائیوں اور بے حیائیوں سے روکتی ہے۔ ایک دفعہ آپ کے کمرے میں آگ لگ گئی اس وقت آپ سجدے میں تھے۔ لوگوں میں شور پڑ گیا اور وہ چلا کر کہنے لگے: اے رسول اللہ کے بیٹے! آگ آگ! مگر آپ نے سجدہ سے سر نہ اٹھایا حتی کہ آگ کو بجھا دیا گیا۔ لوگوں نے پوچھا: آپ کو آگ سے کس چیز نے غافل کیے رکھا؟ تو فرمانے لگے: ’’ایک دوسری آگ نے مجھے اس آغ سے غافل کیے رکھا۔‘‘[2] اللہ اکبر اللہ اکبر۔ مَنَاقِبٌ کَنُجُوْمِ اللَّیْلِ ظَاہِرَۃٌ قَدْ زَانَہَا الدِّیْنُ وَالْاَخْلَاقُ وَالشِّیْمُ ’’رات کے گنجان ستاروں کی طرح روشن اور ظاہر مناقب جن کو دین، اخلاق اور شمائل سے مزین کر دیا تھا۔‘‘ فقراء کا اس قدر خیال رکھتے تھے کہ حد بیان سے باہر ہے۔ چنانچہ جب کوئی سائل آتا تو اسے مرحبا کہتے اور یہ فرماتے: ’’اس شخص کو خوش آمدید جو میرا زادِ راہ آخرت کی طرف اٹھا کر
[1] تاریخ دمشق: ۴۱/۳۷۶۔ [2] مختصر تاریخ دمشق: ۱/۲۳۴۸۔