کتاب: عظیم اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین - صفحہ 239
واقعۂ کربلا کے دن آپ کی عمر تئیس برس تھی۔ اس کے بعد آپ پینتیس برس تک زندہ رہے جو سب کے سب بذل و احسان اور جود واکرام سے معمور تھے۔ آپ عالم با عمل تھے، فضلائے تابعین میں شمار ہوتے تھے۔ زہری کہتے ہیں : ’’میں نے ان سے زیادہ افضل قریشی اور ان سے بڑا فقیہ کوئی نہیں دیکھا۔‘‘[1] علامہ ذہبی رحمہ اللہ سیر اعلام النبلاء میں لکھتے ہیں : ’’علی بن حسین زین العابدین بن ثقہ، مامون، کثیر الحدیث، بزرگ، بلند مرتبہ اور متقی تھے۔‘‘ ایک آدمی نے سعید بن مسیب سے کہا کہ: میں نے فلاں سے زیادہ متقی نہیں دیکھا۔ سعید بولے: ’’تم نے علی بن حسین کو دیکھ رکھا ہے؟ بولا نہیں تو کہنے لگے: میں نے ان سے بڑا متقی نہیں دیکھا۔‘‘ [2] علم کے بے حد حریص تھے، علماء کی ہم نشینی کرتے اور سابق فی الاسلام موالی کے ساتھ بیٹھتے۔ فرمایا کرتے کہ عقل مند آدمی کو وہاں بیٹھنا چاہیے جہاں اسے نفع ملے۔ حتی کہ ایک دفعہ جب آپ زید بن اسلم جو کہ موالی میں سے تھے، کی مجلس میں بیٹھے تھے تو کسی نے آپ سے یہ کہہ دیا کہ: ’’کیا آپ اس غلام کی مجلس میں بیٹھے ہیں ؟ تو آپ نے یہ فرمایا کہ: ’’علم وہیں سے لیا جاتا ہے جہاں وہ ہوتا ہے۔‘‘ [3] زہری آپ کی روایت علم میں آپ کی تواضع کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’ایک دفعہ انہوں نے امام زین العابدین کے سامنے ایک حدیث بیان کی، جب زہری حدیث بیان کرچکے تو امام زین العابدین نے زہری سے کہا: آپ نے خوب بیان کیا اور ہم حدیث کو یوں ہی بیان کیا کرتے ہیں ۔‘‘ اس پر زہری کہنے لگے کہ: ’’میرا خیال ہے کہ میں نے آپ کو ایک ایسی حدیث سنائی ہے جس کو آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں ۔‘‘ امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے اس کا یہ جواب دیا کہ: ’’جو بات لوگ نہ جانتے ہوں (بلکہ ایک کے دل
[1] تاریخ دمشق: ۴۱/۳۶۶۔ [2] حلیۃ الاولیاء: ۳/۱۴۱۔ [3] الطبقات الکبریٰ لابن سعد: ۵/۲۱۶۔