کتاب: عظیم اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین - صفحہ 237
’’اے عائشہ! یہ تیری سوتن اس بات کا شکوہ کر رہی ہے کہ اگر اس کا باپ (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) نہ ہوتے تو تیرا باپ راہِ ہدایت پر نہ آتا۔‘‘ یہ شعر سنتے ہی عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے سائق کو رک جانے کا حکم دیا۔ ایسا انہوں نے ادب اور پاس رسالت کی بنا پر کیا۔ سیّدہ سکینہ اپنے نسب پر فخر دوسروں پر تکبر کرنے کی بنیاد پر نہ کرتی تھیں ۔ نہ اس بنا پر تکیہ کرکے عبادت وعمل ہی کو ترک کرتی تھیں ۔ چنانچہ سیّدہ سکینہ رضی اللہ عنہا کا زہد و عبادت اور طاعت و مشقت زبانِ زد خلائق تھا۔ کیونکہ آپ جانتی تھیں کہ جس کا عمل اسے پیچھے کر دے اس کا نسب اسے آگے نہیں کرسکتا۔ آپ کا فخر ہمیشہ اس کے رد اور جواب میں ہوتا تھا جو آپ پر فخر کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ آپ نے اسّی سال سے متجاوز لمبی عمر پائی۔ مدینہ منورہ میں انتقال ہوا۔ ابن خلکان آپ کی تاریخ وفات کو پوری دقت کے ساتھ ضبط کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: سیّدہ سکینہ رضی اللہ عنہا نے مدینہ منورہ میں بروز جمعرات ۵ ربیع الاوّل ۱۱۸ھ میں وفات پائی۔[1] آپ نے خالد بن عبداللہ بن حارث بن حکم کے دورِ امارت مدینہ میں وفات پائی۔ خالد نے حکم بھیجا کہ میرے آنے کا انتظار کرو، ان کی نماز جنازہ میں پڑھاؤں گا۔ یہ کہہ کر خالد بقیع نکل گیا اور ظہر تک نہ آیا۔ لوگوں کو میت میں تغیر آجانے کا ڈر پیدا ہوگیا۔ چنانچہ انہوں نے آپ کی میت کے لیے تیس دینار کا کافور خرید کر لگایا۔ جب خالد آیا تو اس نے شیبہ بن نصاح[2] کو ان کے فضل کی وجہ سے جنازہ پڑھانے کے لیے آگے کر دیا۔ [3]
[1] وفیات الاعیان: ۲/۳۹۶۔۳۹۷۔ [2] شیبہ بن نصاح قاضیٔ مدینہ سیّدہ ام سلمہ رضی اللّٰه عنہا کا آزاد کردہ غلام تھا۔ دیکھیں : تہذیب الکمال: ۸۱۲/۶۰۸۔ [3] الطبقات لابن سعد: ۸/۳۷۸۔