کتاب: عظیم اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین - صفحہ 235
نزدیک مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ کا بے حد رتبہ ومرتبہ تھا۔ جب مسعب بن زبیر رضی اللہ عنہ نے عبدالملک بن مروان کے خلاف جنگ میں قدم رکھ دیا تو آپ جان گئیں کہ اب وقت فراق آچکا۔ چنانچہ ان کے جانے سے قبل ہی آپ رو پڑیں ۔ ابن کثیر نے خطیب بغداد سے نقل کیا ہے کہ سیّدہ سکینہ رضی اللہ عنہا اس جنگ میں مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھیں جس میں وہ شہید کر دیے گئے تھے۔ قتل کے بعد آپ لاشوں میں انہیں ڈھونڈتی پھر رہی تھیں ۔ آپ نے انہیں رخسار کے ایک مسّے کے ذریعے پہنچانا، لاش دیکھ کر بے اختیار بولیں : تم ایک مسلمان عورت کے بہت اچھے خاوند تھے۔ آپ نے اپنے خاوند کا زبردست مرثیہ پڑھا۔چنانچہ آپ نے یہ اشعار کہے: فَاِنْ تَقْتُلُوْہُ تَقْتُلُوا الْمَاجِدَ الَّذِیْ یَرَی الْمَوْتَ اِلَّا بِالسُّیُوْفِ حَرَامًا وَقَبْلَکَ مَا فَاضَ الْحُسَیْنُ مَنِیَّۃً اِلَی الْقَوْمِ حَتّٰی اَوْرَدُوْہُ حِمَامًا ’’اگر تم لوگوں نے ان کو قتل کیا ہے تو یاد رکھو کہ تم لوگوں نے ایک ایسے اونچے آدمی کو مارا ہے جو تلوار کی موت کے بغیر ہر موت کو حرام سمجھتا ہے۔ اور تجھ سے پہلے حسین بھی شہید ہو چکے ہیں مگر انہوں نے بھی موت کو جب تک کہ ان کی قوم انہیں میدانِ موت میں نہ لے آئی، گلے نہ لگایا۔‘‘ [1] خاوند کی شہادت کے بعد آپ مدینہ کے لیے عازم سفر ہوئیں ۔ تو کوفیوں نے گھیر لیا اور رکنے کی درخواست کی۔ آپ نے انہیں یہ کہہ کر زبردست لعنت ملامت کی کہ: ’’اللہ کی قسم! تم لوگوں نے میرے دادا (علی رضی اللہ عنہ )، میرے باپ (حسین)، میرے چچا، او رمیرے خاوند مصعب کو قتل کر دیا۔ تم لوگوں نے مجھے بچپن یتیم جب کہ بڑی عمر میں بیوہ کر دیا۔ اللہ تم کوفیوں کو عافیت نہ دے اور تم پر کسی اچھے شخص کو خلیفہ نہ بنائے۔‘‘ پھر مدینہ کا
[1] کتاب الاغانی: ۱۶/۱۶۷۔