کتاب: عظیم اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین - صفحہ 234
اِنَّ الْحُسَیْنَ غَدَاۃَ الطَّفِّ یَرْشِقُہُ رَیْبُ الْمَنُوْنُ فَمَا اَنْ یُخْطِیَٔ الْحَدَقَۃَ یَا عَیْنَ فَاحْتَفِلِی طُوْلَ الْحَیَاۃِ دَمًا لَا تَبْکِ وُلْدًا وَلَا اَہْلًا وَلَا رَفَقَۃً لٰکِنْ عَلَی ابْنِ رَسُوْلِ اللّٰہِ فَانْسَکَبِیْ قِیْحًا وَدَمْعَا وَفِیْ إِثْرَیْہِمَا الْعَلَقَۃِ ’’کربلاء کے دن حوادثِ زمانہ نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو نگاہ بھر کے دیکھا اور آپ کو اپنی آماجگاہ بنایا اور پلک جھپکنے کی مقدار بھی دیکھنے میں خطا نہ کی (یعنی حوادثِ زمانہ نے تاک کر آپ کو اپنا نشانہ بنایا)۔ اے آنکھ! زندگی بھر خون جمع رکھنا اور اولاد رشتہ دار اور دوست احباب پر نہ رونا۔ مگر ابن رسول پر خوب رونا کہ پہلے آنسو بہہ بہہ کر ختم ہو جائیں تو پت نکلے، وہ ختم ہو جائیں تو آنسو اور پت کی جگہ خون نکلے۔‘‘ سیّدہ سکینہ بے حد صالحہ، کریمانہ اخلاق کی مالک، ادب و حیاء سے آراستہ، فہم وذکاء سے مزین اور بے پناہ حسن وجمال سے پیراستہ تھیں علامہ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ: ’’سیّدہ سکینہ بے حد با رعب اور خود دار و با وقار تھیں ۔‘‘[1] آپ نے اپنی پاکیزہ ذات میں صورت وسیرت، حسب ونسب اور علم و دین ہر اعتبار سے بزرگ اور کرامت کو جمع کر رکھا تھا۔ آپ اپنے چچا زاد عبداللہ بن حسن اکبر کے نکاح میں آئیں تھیں جو میدانِ کربلاء میں آپ کے ساتھ بنا کرنے سے پہلے ہی سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ شہادت کی شرافت سے سرفراز ہوگئے تھے۔ خاوند کی شہادت کے بعد آپ کو مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ نے نکاح کا پیغام بھیجا[2] جو ابن کثیر رحمہ اللہ کے بیان کے مطابق سب سے خوبرو، وجیہ، بہادر اور سخی تھے۔[3] سیّدہ سکینہ کے
[1] سیر اعلام النبلاء: ۵/۲۶۳۔ [2] سیر اعلام النبلاء: ۵/۲۶۲۔ [3] البدایۃ والنہایۃ: ۸/۳۱۷۔