کتاب: عظیم اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین - صفحہ 233
تھیں ۔ کربلا کا میدان ابھی تین میل کے فاصلے پر تھا کہ ابن زیاد کا بھیجا لشکر سامنے آکھڑا ہوگیا جن کی تعداد پانچ ہزار تھی۔ جب کہ آپ کے ساتھیوں کی تعداد بے حد کم تھی۔ آپ نے اپنے اہل کو اکٹھا کیا اور انہیں اس بات کی وصیت کی کہ میرے شہید ہو جانے کے بعد جاہلیت والا کوئی کام نہ کرنا جیسے گریباں چاک کرنا، چہرہ پیٹنا وغیرہ۔ یہ سن کر سیّدہ سکینہ رو پڑیں ۔ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف التفات فرمایا اور یہ اشعار پڑھے: سَیَطُوْلُ بَعْدِیْ یَا سَکِیْنَہُ فَاَعْلِمِیْ مِنْکَ الْبُکَائُُ اِذَا الْحِمَامُ دَہَانِیْ لَا تُحْرِقِیْ قَلْبِیْ بِدَمْعِکِ حَسْرَۃً مَا دَامَ مِنِّی الرُّوْحُ فِیْ جِثْمَانِیْ فَاِذَا قُتِلْتُ فَاَنْتِ اَوْلَی بِالَّذِیْ تَأْتِیْنَہُ یَا خَیْرَۃَ النِّسْوَان ’’اے سکینہ! جان لے کہ میرے بعد تیرا رونا بے حد لمبا ہوگا جب موت کی آفت مجھے آلے گی۔ اور جب تک روح میرے بدن میں باقی رہے تو حسرۃ کے ساتھ رو کر اپنے آنسوؤں سے میرا دل نہ جلانا۔ اور جب میں قتل کر دیا جاؤں تو اے سب سے بہتر خاتون! تو اس شخص کے پاس آنے کی زیادہ مستحق ہے جس کے پاس تم عورتیں آؤ (یعنی میری لاش کے پاس آنے کی تم زیادہ مستحق ہو)۔‘‘ حسینی قافلہ ستر سے زیادہ جوانوں پر مشتمل نہ تھا۔ جب کہ یزیدی پانچ ہزار سے زیادہ تھے۔ جب دونوں کے درمیان گھمسان کی جنگ چھڑ گئی اور یزیدیوں نے حسینی قافلہ کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور وہ چن چن کر آپ کے ساتھیوں کو قتل کرنے لگے اور بالآخر جناب سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو بھی شہید کر دیا اور سیّدہ سکینہ یہ سارا منظر دیکھ رہی تھیں کہ آپ والد ماجد کے لاشے پر گر گئیں تاکہ ان کی آخری زیارت کرسکیں ۔ آپ نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ الوداعی معانقہ کیا اور ان اشعار کے ساتھ آپ کا مرثیہ پڑھا: