کتاب: عظیم اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین - صفحہ 232
ہوئیں ۔ ایک عبداللہ! انہیں کے نام پر سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو عبداللہ تھی۔ دوسرے سکینہ۔ انہیں کے بارے میں ہم ان صفحات میں گفتگو کر رہے ہیں ۔ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو اپنی ننھی بیٹی سیّدہ سکینہ سے بے پناہ محبت تھی اور والدہ ماجدہ رباب رضی اللہ عنہا بھی ان کا بے حد خیال رکھتی تھیں ۔ جب عزیز و اقارب نے سیّدہ سکینہ رضی اللہ عنہا اور رباب کے ساتھ بے پناہ محبت کرنے کی بنا پر سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ پر عتاب کیا تو آپ نے یہ اشعار پڑھے:
لِعُمُرِکَ اِنَّنِیْ لَاُحِبُّ دَارًا
تَکُوْنَ بِہَا سَکِیْنَۃُ وَالرُّبابُ
اَحَبُّہُمَا وَاَبْذَلُ جُلَّّ مَالِیٌ
وَلَیْسَ لِلْاَئِمِّیْ فِیْھَا عَتَابُ
وَلَسْتُ لَہُمْ وَاِنْ عَتَبُوْا مُطِیْعًا
حَیَاتِیْ اَوْ یُغَیِّبُنِیْ التُّرَابُ
’’تیری عمر کی قسم! مجھے اس گھر سے محبت ہے جس میں سکینہ اور رباب رہتی ہیں اور میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں اور ان پر اپنا زیادہ مال خرچ کرتا ہوں اور اس بابت جومجھے ملامت کرتا ہے اس پر کوئی عتاب نہیں ۔ اور یہ لوگ مجھ پر چاہے جتنا بھی عتاب کر لیں میں اپنی زندگی میں ان کی بات ماننے والا نہیں ۔ یہاں تک کہ آسودۂ خاک ہو جاؤں ۔‘‘[1]
سیّدہ سکینہ رضی اللہ عنہا بڑی ہوگئیں اور قریشی سوسائٹی میں اپنے اعلیٰ کردار اور نیک صفات کی بنا پر عورتوں کی سردار کہلائیں اور وہ شہرت پائی جو آپ کی معاصر خواتین کو نصیب نہ ہوسکی۔ چنانچہ آپ نے لوگوں کو علم و ادب سے آراستہ کیا، انہیں تقویٰ و عبادت سکھلائی۔ پھر آپ کا شمار ان تابعات میں ہوتا ہے جنہوں نے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کرکے روایت کیا۔ ایسا کیوں نہ ہوتا؟ کہ آپ سیّدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی پوتی اور بیت نبوت کی طاہر وکریم اولاد
[1] البدایۃ والنہایۃ: ۸/۲۰۹،۲۱۰۔