کتاب: عظیم اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین - صفحہ 229
رسول کے ساتھ وہ سلوک کیا ہے جس پر انسانیت انہیں کبھی معاف نہ کرے گی۔ اس موقعہ پر سیّدہ فاطمہ نے اہل کوفہ کو گرجدار الفاظ کہے جنہوں نے اہل کوفہ کے وجودوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ آپ نے فرمایا: ’’اے اہل کوفہ! اے مکرو فریب اور عذرو خیانت کے متکبر پیکرو! ہم اہل بیت ہیں رب تعالیٰ نے ہمیں تم سے اور تمہیں ہم سے آزمائش میں مبتلا کیا اور ہماری آزمائش کو اچھا بنایا… ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو، تمہارا ناس ہو کیا تم جانتے ہو کہ تم میں سے کس ہاتھ نے ہمیں چوکے دیے۔ کس جان نے ہم سے قتال کیا اور تم سے کون سا قدم چل کر ہمارے ساتھ محاربہ کرنے آیا۔ اللہ کی قسم! تمہارے دل سخت ہوگئے ہیں ، تمہارے کلیجے پتھر ہوگئے ہیں ، تمہارے دلوں پر مہر لگ چکی ہے اور تمہارے کانوں اور آنکھوں پر مہر لگا دی گئی ہے۔ شیطان نے تمہیں تمہارے اعمال مزین کرکے دکھائے ہیں اور تمہیں جھوٹی امیدیں دلائی ہیں اور تمہاری آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے۔ اب تم بے راہ ہو۔ اے اہل کوفہ! تمہاری ہلاکت ہو۔‘‘ [1] اس کے بعد آپ کو شام اور پھر وہاں سے مدینہ منورہ بھیج دیا گیا جس کا تفصیلی قصہ گزشتہ میں بیان ہو چکا ہے۔ سیّدہ فاطمہ کس قدر عظیم صفات کی مالک تھیں کہ اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے جب وہ شامی شخص روانہ ہونے لگا جو آپ کو مدینہ منورہ تک چھوڑنے آیا تھا تو آپ نے اپنا زیور اتار کر اس کو اس خدمت کا صلہ دیا۔ جس کی تفصیل گزشتہ میں بیان کی جاچکی ہے۔ سبحان اللہ! سیّدہ فاطمہ اس قدر دلدوز واقعات سے گزر گئیں مگر ان حالات میں بھی جود و کرم کی خو کو ہاتھ سے جانے نہ دیا اور اس یزید کے قاصد کو بھی نواز کر بھیجا جس نے آپ کے دل کو سب سے بڑا صدمہ پہنچایا تھا۔ بے شک یہ بے حد عجیب بات ہے لیکن اہل
[1] اللہوف، ص: ۶۵،۶۶،۶۷۔