کتاب: عظیم اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین - صفحہ 228
بن حسن بن علی رضی اللہ عنہ آپ کے خاوند ہیں ۔ اولاد میں عبداللہ المحض، ابراہیم الغمر، حسن المثلث، زینب اور ام کلثوم جیسے عظمائے اہل بیت کے نام آتے ہیں ۔ خاوند حسن المثنیٰ کی وفات کے بعد آپ عبداللہ بن عمرو بن عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آئیں ۔ جب ان کا بھی انتقال ہوگیا تو پھر مرتے دم تک شادی نہ کی۔ گزشتہ میں بیان کیا جاچکا ہے کہ حسن مثنیٰ کے نکاح کے پیغام کے وقت سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ فاطمہ میری ماں فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ مشابہ ہے۔ سبحان اللہ! آپ کے والد ماجد نے آپ کی جو یہ صفت بیان کی ہے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ والد ماجد کی نگاہوں میں آپ کا مرتبہ بے حد بلند تھا۔ طبعی بات ہے کہ یہاں مشابہت سے صرف شکل و صورت کی مشابہت ہی مراد نہیں بلکہ سیرت کی مشابہت بھی مراد ہے۔ سیّدہ فاطمہ اس قدر حسین وجمیل تھیں کہ حور عین کے ساتھ تشبیہ دی جاتی تھیں جب کہ اخلاق اور شمائل و خصائل کا یہ عالم تھا کہ بنی ہاشم کی ’’درۃ الفواطم‘‘ کے لقب سے نوازی گئیں ۔ آپ کی شادی اسی سال ہوئی جس سال والد ماجد جناب حسین رضی اللہ عنہ میدان کربلاء میں شہادت سے نوازے گئے۔ یہ ۵۱ھ کا واقعہ ہے۔ میدانِ کربلا میں آپ والد ماجد کے ساتھ تھیں ۔ شہادتوں کے وہ جملہ دلدوز مناظر آپ نے بھی دیکھے تھے۔ جنہوں نے دنیا کو دہلا کر رکھ دیا۔ اس دن سورج غروب نہ ہوا تھا کہ سیّدہ فاطمہ میدانِ کربلا میں اپنے والد ماجد، بھائیوں ، چچوں ، چچیرے بھائیوں اور وفادار ساتھیوں کے لاشوں کو خاک آلود دیکھ رہی تھی۔ مگر آپ نے کمال صبر کیا۔ گیارہ محرم کی صبح ابن زیاد کے ساتھی سواری کے لیے اونٹ لے آئے۔ آپ کو دیگر اہل بیت کے ساتھ یزید کی طرف لے چلے۔ ساربان آپ کو میدانِ معرکہ کے پاس سے لے چلے جہاں لاشیں بکھری پڑی تھیں وہ منظر بڑا دلدوز تھا، سیّدہ فاطمہ نے نافہ کی پیٹھ پر پرنم نگاہوں کے والد ماجد کی شہید لاش کو الوداع کہا اور حزن وملال کا یہ قافلہ کوفہ روانہ ہوگیا جہاں لوگوں نے شرمندہ چہروں کے ساتھ ان کا استقبال کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ انہوں نے آلِ بیت