کتاب: عظیم اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین - صفحہ 226
ناامیدی کا شکار نہ ہوں ۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’مہدی کا معاملہ معلوم ہے۔ ان کے بارے میں احادیث متواتر ہیں جو ایک دوسرے کو قوی کرتی ہیں ان کا تواتر معنوی ہے جن کا طریق کثرت پر مشتمل ہے۔ جو متعدد صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں ان سب روایات کے الفاظ بتلاتے ہیں کہ ایسے موعود شخص کا وجود ثابت ہے، اس کا خروج حق ہے یہ محمد بن عبداللہ علوی حسنی ذریت حسن بن علی بن ابی طالب سے ہے۔ مہدی اخیر زمانہ میں امت پر رب کی رحمت ہوگا۔ مہدی نکل کر حق و عدل کو قائم کریں گے، ظلم وجور کی بیخ کنی کریں گے۔ رب تعالیٰ ان کے ذریعے امت پر خیر کے پرچم کو پھیلائے گا۔ لوگوں کو عدل وہدایت اور توفیق و ارشاد سے نوازے گا۔‘‘ علامہ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو اپنے اہل بیت کے ایک شخص کی بشارت دی ہے اور واضح صفات و علامات کو بیان کیا ہے۔ جن میں سے سب سے اہم علامت یہ ہے کہ وہ اسلام کو قائم کریں گے، لوگوں میں عدل پھیلائیں گے۔ وہ حقیقی مجدد ہوں گے جن کو رب تعالیٰ ایک صدی کے خاتمہ پر مبعوث فرمائیں گے۔ جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے البتہ ان احادیث میں ہمیں ترک عمل کی دعوت نہیں ملتی کہ ہم تجدید دین کی سعی ترک کر کے بیٹھ رہیں ۔ اس طرح ان احادیث سے ہمیں زمین میں رب کی خلافت قائم کرنے کی کوشش ترک کرنے کا درس بھی نہیں ملتا۔ بلکہ درست اس کے بالعکس ہے۔ مہدی زمین میں ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محنت نہ کر پائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ۲۳ سال تک لگاتار جدو جہد فرمائی۔ اگر مہدی آج نکل آئے تو مسلمانوں کو متفرق جماعتوں میں بٹا ہوا دیکھ کر کیا کریں گے؟ دولت اسلام کا قیام امت کے اتحاد و اتفاق کے بغیر ممکن نہیں ۔ ایسا کب ہوگا۔ اللہ ہی جانتا ہے۔ عقل و شرع دونوں کا تقاضا ہے کہ مخلص مسلمان اس واجب کو قائم کریں ۔ چنانچہ جب مہدی ظاہر ہوں تو انہیں صرف مسلمانوں کو فتح ونصرت کاکی طرف لے جانا ہی ہو۔‘‘ [1]
[1] سلسلہ صحیحہ میں حدیث رقم: ۱۵۲۹ کا حاشیہ۔