کتاب: عظیم اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین - صفحہ 219
زیادہ ممکن نہیں ۔ آپ نے تین حج کیے۔ گریہ وبکاء کی کثرت کرتی تھیں ۔ قیام لیل اور روزوں کا دوام رکھتیں ۔ کسی نے کہہ دیا کہ اپنی جان پر ترس کھایا کیجیے، تو کہنے لگیں : ’’میں اس کے ساتھ کیسے نرمی کروں کہ اس کے آگے ایک ایسی گھاٹی ہے جس کو کامیاب لوگ ہی پار کرتے ہیں ۔‘‘ [1] اکثر یہ دعا مانگا کرتی تھیں : ’’اے اللہ! میں بری بات، برے عمل، بری نیت اور برے پڑوسی سے تیری پناہ میں آتی ہوں ۔ اے اللہ! مجھے میرے نفس کے حوالے نہ کرنا کہ میں عاجز ہو جاؤں اور نہ کسی اپنی مخلوق کے حوالے کرنا کہ میں ضائع ہو جاؤں ۔ اے اللہ! مجھے میرے سیدھے امور کا الہام فرما، میرا انعام اچھا کر، میری زندگی سدھار دے میری لغزش بخش دے، مجھے وساوس شیطانیہ سے بچا اور مجھے شیطان سے پناہ دے اے رب رحمان! تاکہ اسے مجھ پر قدرت نہ رہے۔ درود وسلام بھیج ہمارے آقا صاحب شریعت وبرہان جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر آمین۔‘‘ مصر میں قیام کو چند سال ہی گزرے تھے کہ سیّدہ نفیسہ بیمار پڑ گئیں لیکن آپ نے بے حد صبر کا مظاہرہ کیا۔ فرمایا کرتی تھیں : ’’صبر دل میں ایمان کے بقدر مومن کو لازم ہے۔ اور صبر کرنے والے کو یہ یقین ہو کہ اللہ اس کے ساتھ ہے۔ مومن کو مشقتوں اور آزمائشوں میں خوش ہونا چاہیے کہ یہ رب کے ہاں رفع درجات کا ذریعہ ہے۔ اجر بقدر مشقت ہوتا ہے اور اللہ جس کے لیے چاہے اجر کو دو گنا کر دے کہ وہ وسعت اور علم والا ہے۔‘‘ سیّدہ نفیسہ نے جب محسوس کیا کہ وقت اجل قریب آگیا ہے۔ تو خاوند کو بلوا بھیجا۔ وہ کہیں دور تھے۔ سیّدہ نفیسہ وفات کے دن روزے سے تھیں ۔ لوگوں نے ترس کھاتے ہوئے روزہ توڑ دینے کو کہا۔ سیّدہ اس وقت عالم نزع میں تھیں لیکن سیّدہ کو اصرار تھا کہ رب کے ساتھ ملاقات کا وقت قریب ہے لہٰذا روزہ نہ کھولوں گی اس لیے فرمایا: ’’واہ! تیس سال سے یہ دعا مانگ رہی ہوں کہ روزے میں موت آئے اور اب روزہ کھول دوں پھر بڑے خشوع سے
[1] المواعظ والاعتبار: ۳/۲۰۳۔