کتاب: عظیم اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین - صفحہ 218
اب آپ نے لوگوں کو علم کے زیور سے آراستہ کرنا شروع کیا آپ کا دروازہ طالبانِ علوم دینیہ کے لیے ہر وقت کھلا رہتا تھا۔ آپ انہیں احادیث روایت کرتیں اور ان کے دینی اور دنیاوی امور میں انہیں فتویٰ بھی دیتیں ۔ حتی کہ لوگوں نے آپ کو ’’نفیسہ العلم والمعرفت‘‘ کا لقب دیا۔ ۱۹۳ھ میں والد اور خاوند کے ساتھ سیّدہ نفیسہ مصر چلی گئیں ۔ فسطاط میں دارِ ابن جصاص میں رہائش اختیار کرلی جو اعیانِ مصر میں سے تھا۔ پھر مراگہ جسے آج کل قرافہ کہتے ہیں ، میں دارِ ام ہانی میں منتقل ہوگئیں ۔ اہل قرافہ رسولِ خدا کی نواسی کے آنے پر بے حد مسرور تھے۔ ابن کثیر نے بھی آپ کے مصر آنے کے قصہ کو ذکر کیا ہے۔ اہل مصر آپ کی بے پناہ تعظیم و تکریم کرتے تھے۔ ہر خاص و عام اور کبار علماء تک حصول علم کے لیے آپ کے دروازے پر جمع رہتے تھے امام شافعی آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ آپ ان کے ساتھ بے حد نیک سلوک کرتیں اور رمضان میں کبھی آپ کو نماز بھی پڑھاتے تھے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے اس بات کی وصیت کی تھی سیّدہ نفیسہ ان کے جنازہ میں شریک ہوں ۔ صفدی کہتے ہیں کہ مصر آنے پر امام شافعی نے سیّدہ نفیسہ سے حدیث سنی۔ جب امام شافعی وفات پاگئے تو جنازہ زنان خانہ میں داخل کیا گیا۔ سیّدہ نفیسہ نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھی۔[1] ابن کثیر نے بھی اس بات کو ذکر کیا ہے۔ ابن عماد حنبلی ابن اھدل سے نقل کرتے ہیں کہ امام شافعی رحمہ اللہ کی یہ عظیم منقبت ہے کہ وہ سیّدہ نفیسہ کے سلسلۂ نسب سے تعلق رکھتے تھے۔ ان سے حدیث سنی اور سیّدہ نے آپ کی نمازِ جنازہ بھی ادا کی۔ بلاشبہ یہ قبولیت و اجلال اور آپ کی وصیت کا نتیجہ تھا۔ [2] سیّدہ نفیسہ کی عبادت گزاری زبانِ زد خلائق تھی حتی کہ آپ ایک مومنہ صالحہ کی علامت بن گئیں ۔ ’’المواعظ والاعتبار‘‘ میں لکھا ہے کہ سیّدہ نفیسہ اس قدر عابدہ وزاہدہ تھیں کہ اس سے
[1] الوافی بالوفیات: ۲۷/۱۰۱۔ [2] شذرات الذہب: ۲/۲۱۔