کتاب: عظیم اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین - صفحہ 193
کو یہ ارشاد فرماتے سنا ہے۔‘‘ روزِ قیامت ہر تعلق اور رشتہ ختم ہو جائے گاسوائے میرے تعلق اور رشتے کے۔[1]
ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں : ’’سوائے میرے تعلق، رشتہ اور سسرالی تعلق کے۔‘‘ پھر سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’میرا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق اور نسبی رشتہ تو تھا ہی، میں نے چاہا کہ اس کے ساتھ سسرالی رشتہ بھی قائم کرلوں ۔‘‘ [2]
یوں یہ مبارک شادی ہوگئی۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیّدہ ام کلثوم اور ان کے والدین بلکہ اس عظیم نسبت کی کرامت کے پیش نظر چالیس ہزار مہر مقرر فرمایا۔ علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں سیّدہ ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہا کے ساتھ جو سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے تھیں ، نکاح فرمایا اور آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب کے اکرام میں ان کا مہر بے حد زیادہ مقرر کیا۔ جو چالیس ہزار درہم تھا۔ [3]
وَانْظُرْ اِلَی الْفَارُوْقِ یطرق بابہا
شَوْقًا اِلَی النَّسْبِ الَّذِیْ لَا یُغْلَبُ
فَرِحَتْ بِہِ الْکَلْثُوْمُ زَوْجًا طَاہِرًا
وَالطَّیِّبَاتُ لَہُنَّ بِرَّ طَیِّبُ
’’ذرا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو تو دیکھیے جو اونچے نسب کے شوق میں جو مغلوب نہیں ہوتا سیّدہ ام کلثوم کے دروازہ پر دستک دے رہے ہیں ۔ اور سیّدہ ام کلثوم بھی اس نیک اور پاکیزہ خاوند پر بے حد خوش ہیں ۔ سچ ہے کہ پاکیزہ عورتوں کے لیے نیک اور پاکیزہ خاوند ہوتے ہیں ۔‘‘
[1] حافظ ہیثمی رحمہ اللہ ’’المجمع‘‘ میں فرماتے ہیں : اس حدیث کو طبرانی نے اوسط اور کبیر میں روایت کیا ہے۔ اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں سوائے حسن بن سہل کے جو ثقہ ہے۔ البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ صحیحہ، رقم: ۲۰۳۶ میں اس کے تمام طرق کے اعتبار سے اسے صحیح کہا ہے۔
[2] اسد الغابۃ: ۵/۶۱۵۔
[3] البدایۃ والنہایۃ: ۵/۲۳۰۔