کتاب: عظیم اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین - صفحہ 19
بڑی بے باکی، شوخ چشمی اور ڈھٹائی کے ساتھ بیان کرتے ہیں !
صرف ان کے تذکروں تک ہی اکتفاء نہیں کرتے بلکہ ان کے نام کے یادگاری مجسمے بنا بنا کر ان کو جا بجا نصب کرتے ہیں تاکہ ان کے آبرو باختہ کارناموں کی یاد تازہ رہے۔ ان کے کرتوتوں کے تذکرے زندہ رہیں حالانکہ یہ رب کے سب سے برے بندے اور بدترین مخلوق تھے اور روزِ قیامت یہی لوگ سب سے زیادہ رسوا ہوں گے!
لیکن اے میرے بھائیو اور بہنو! ہمارے مشاہیر، ہمارے ہیروز، ہمارے بہادر، ہمارے نامور اور سربر آوردہ لوگ کچھ اور ہی ہیں ، اور کسی اور ہی رنگ ڈھنگ کے مالک ہیں وہ اپنی مثال آپ اور انسانی تاریخ انوکھا نمونہ، اسوہ اور قدوہ ہیں ، بلاشبہ وہ یگانۂ روزگار، دریتیم اور فرد فرید تھے، اور شاعر کا یہ شعر ان پر بجا طور پر صادق آتا ہے۔
اُولٰئِکَ اٰبَائِیْ فَجِئْنِیْ بِمِثْلِہِمْ
اِذَا جَمَعْتَنَا یَا جَرِیْرُ الْمَجَامِعَ
’’اے جریر! جب مخالفین ہمارے سامنے (اپنے اپنے مشاہیر کو) جمع کریں (اور ان کو پیش کرکے اس بات کا چیلنج کریں کہ ہے کوئی ان جیسا؟ تو اس وقت اس للکار اور پکار کا جواب دیتے ہوئے ہم اپنے بڑوں اور بزرگوں کو پیش کرکے یہ کہیں گے کہ) یہ ہمارے بڑے ہیں (اے جریر! ہمت ہے تو) ان جیسا سامنے لاؤ۔‘‘
وہ ایسے کیونکر نہ ہوتے؟ کیونکہ وہ تو جناب رسالت مآب جنابِ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے پیروکار تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بجا طور پر سب سے اعلیٰ انسان تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور بڑائی کے لیے یہی بات کافی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رب تعالیٰ کے پیغمبر ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب تعلیمات براہِ راست اپنے پروردگار خالق و مالک سے حاصل کیں ۔
یہ نکتہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ آپ جب بھی کسی عظیم انسان کے بارے میں سنیں گے اور اس سے ملیں گے تو یقینا وہ اس سے کم درجے کا ہی نکلے گا جتنا کہ آپ نے اس کے بارے