کتاب: عظیم اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین - صفحہ 160
سیّدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ
میرے محترم دوستو! اہل بیت کی مسلمانوں کے دلوں میں ایک عجیب محبت وعظمت ہے اور ایسا کیوں نہ ہو کہ یہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابتدار ہیں ۔ پھر اہل بیت کے فضائل وکمالات شمار قطارے ما وراء ہیں ۔ انہیں عظیم ہستیوں میں سے آج ہم ایک بے مثال، منفرد، یکتا، اور عظیم صحابی رسول کے بارے میں گفتگو کریں گے جنہوں نے صدقِ ایمان اور عالی ہمتی اور راہِ خدا میں ہجرت و قربانی کو ایک دل میں جمع کیا، اور وہ ایسا کیوں نہ کرتے جب کہ وہ یہ کہہ رہے ہیں :
یَا حَبَذَا الْجَنَّۃَ وَ اقْتَرَابَہَا
طَیبۃ و باردٌ شرابہا علی
َوالرُّوْمُ رُوْمٌ قَدْ دَنَا عَذَابُہَا
اَنْ لاقیتہا ضِرابہا
’’جنت اور اس کا قرب کیا ہی اچھا ہے اور جنت کا پانی کس قدر ٹھنڈا اور لذیز ہے، رومیوں تمہارے عذاب کا وقت آن پہنچا، اور مقابلہ کے وقت تمہارا مارنا مجھ پر لازم ہے۔‘‘ [1]
یہ جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں جن کی کنیت ابو عبداللہ ہے۔ آپ زبردست خطیب بے حد سخی، مہمان نواز، خطیب مہاجرین، علم مجاہدین، دو ہجرتوں والے، دو قبلوں کے نمازی ہیں جن کے مدینہ لوٹنے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بے حد مسرور ہوئے تھے جب کہ آپ کی شہادت پر
[1] یہ غزوۂ موتہ کا واقعہ ہے اور یہ اشعار سیّدنا جعفر رضی اللہ عنہ نے اس وقت پڑھے تھے جب جنگ کے شعلے خوب بھڑک اٹھے تھے۔ آپ نے اپنے گھوڑے کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور دشمنوں میں گھسے۔ اسی غزوہ میں شہید ہوئے۔ حلیۃ الاولیاء: ۱/۱۱۸۔