کتاب: عظیم اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین - صفحہ 105
((اِنَّہُمَا آیَتَانِ مِنْ آیَاتِ اللَّہِ لَا یَنْکَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَیَاتِہِ)) [1]
’’سورج اور چاند یہ دونوں رب کی (قدرت قاہرہ کی) نشانیوں میں سے ہیں انہیں کسی کی موت یا حیات کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا…‘‘
یوں جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ثابت کیا کہ احوالِ فلکیہ اور حوادثِ ارضیہ میں کوئی تلازم، تعلق اور علاقہ نہیں ۔ اس لیے ایک انسان کو یہ اعتقاد رکھنا کسی طور پر بھی روا نہیں کہ رب تعالیٰ کی قوانین ربانیہ اور سنن طبیعیہ میں کسی کی موت یا حیات کی بنا پر کوئی تغیر واقع ہوتا ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ خطرناک اور سنگین امر یہ ہے کہ ان جاہلی اور فاسد اعتقادات نے بے شمار انسانوں میں اس بات کا اعتقاد پیدا کر دیا کہ ان اجرام سماویہ کو انسان زندگی میں تصرف اور اختیار بھی حاصل ہے حتی کہ بعض نے تو یہ تک کہہ دیا کہ ’’ہم پر فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش برسی‘‘ حالانکہ انہیں تو یہ کہنا چاہیے تھا کہ ’’ہم پر اللہ کے فضل و رحمت کی وجہ سے بارش برسی ہے‘‘[2] بے شک ایک سچے مسلمان کا ہمیشہ رب تعالیٰ کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔
[1] متفق علیہ: (البخاری: ۳۰۳۱۔ مسلم: ۹۰۱) من حدیث ام المومنین عائشۃ رضی اللّٰه عنہ ۔
[2] متفق علیہ: (البخاری: ۸۱۰۔ مسلم: ۷۱) یہ حدیث سیّدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہم سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں : حدیبیہ کے دن رات بارش برسی، صبح کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نمازِ فجر پڑھائی۔ جب پلٹ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے تو فرمایا: ’’جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا کہا ہے؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں آپ نے فرمایا کہ: ’’(رب تعالیٰ فرماتے ہیں ) میرے بندے دو حال میں صبح کرتے ہیں (بعض) مومن (بن کر) اور (بعض) کافر (بن کر) پس جو تو یہ کہتا ہے کہ ہم پر اللہ کے فضل و رحمت سے بارش برسی تو وہ مجھ پر ایمان رکھنے والا اور ستاروں کا انکار کرنے والا ہے اور جو یہ کہتا ہے کہ فلاں فلاں ستارے سے بارش برسی تو وہ میرا انکار کرنے والا اور ستاروں کو ماننے والا ہے۔‘‘