کتاب: عورت کا زیور پردہ - صفحہ 98
رَجُلٌ بِاِمْرَأَۃٍ اِلَّا وَمَعَہَا مَحْرَمٌ وَلَا تُسَافِرُ الْمَرْأَۃُ اِلَّا مَعَ ذِیْ مَحْرَمٍ فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم! اِنَّ امْرَأَتِیْ خَرَجَتْ حَاجَّۃً وَاِنِّی اکْتُتِبْتُ فِیْ غَزْوَۃِ کَذَا وَکَذَا قَالَ انْطَلِقْ فَحُجَّ مَعَ امْرَأَتِکَ۔)) [1] ’’کوئی عورت اور مرد خلوت میں نہ جائیں مگر محرم کے ساتھ اور کوئی عورت محرم کےبغیر سفر نہ کرے تو ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا یارسول اللہ! میری بیوی حج کرنے جا رہی ہے اور میرا نام فلاں غزوہ میں لکھا گیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔‘‘ اگر حج جیسا نیک اور فرض کام بغیر محرم کے نہیں ہو سکتا تو بازار اور شہر بغیر محرم کے کیسے پھرے جا سکتے ہیں۔ کہتے ہیں جی نیک عورتیں اگر ہوں تو پھر عورت اکیلے ہی جا سکتی ہے بتاؤ صحابیات سے بڑھ کر کوئی نیک ہے؟ لیکن ہم قرآن و سنت کو سامنے نہیں رکھتے اپنے دل کی بات کو سامنے رکھ کر بیٹیوں اور بیویوں کو کھلی اجازت دی جاتی ہے جب وہ کسی آشنا کو تلاش کر لیتی ہیں اور غیرت اور عفت و عصمت کی اس دیوار کو گرا دیتی ہیں پھر مسلمان کا کلیجہ حلق تک پہنچتا ہے اور گولی مارنے اور مروانے پر تیار ہو جاتا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے: دیوار کیا گری میرے کچے مکان کی لوگوں نے میرے صحن میں رستہ بنا لیا اس لیے وہ طرق جو اس دیوار کے انہدام کی طرف لے جاتے ہیں اس سے ہر مسلمان اور صاحب فراست کو بچنا چاہیے لیکن مسلمانی تو آج کی ایسی ہے کہ یہودیت کی پیروی اور تقلید تو ان کے لیے جزو لاینفک بن چکی ہے ادھر عید مبارک خوشی کا دن ہے ادھر یہودیوں کی تقلید میں سوئمنگ پول بک ہو چکا ہے دین سمجھ کر اولاد کو سکھانے کے لیے نہیں بلکہ مباہات کے لیے۔ بھلا اے غیرت مند مسلمان! بتلا تو سہی یہ عمل کس نے نکالا تھا۔ مرد تو
[1] البخاری ۳۰۶۱‘ ۱۸۶۲ و مسلم ۱۳۴۱۔