کتاب: عورت کا زیور پردہ - صفحہ 97
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ: ((دَعْ مَا یُرِیْبُکَ اِلیٰ مَا لَا یُرِیْبُکَ۔))[1] ’’اس چیز کو چھوڑ دے جو تجھے شک میں ڈالے اور اس کو لے لے جو تجھے شک میں نہ ڈالے۔‘‘ تو کوئی مسلمان ایمانداری سے اپنے دل سے پوچھے کہ وہ بے پردگی کو جب برداشت کرتا ہے کیا اسے شک بھی نہیں ہوتا کہ یہ بری چیز ہے بلاشبہ ضرور ہوتا ہو گا اگر شک بھی نہیں ہوتا تو پھر اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ فرمائے یہ تو پھر ایمان کے فقدان کی بڑی دلیل ہے چنانچہ قدیم مقولہ ہے ((اَلرَّائِدُ لَا یَکْذِبُ اَھْلَہٗ۔)) ’’گھر والا (نگہبان) گھر والوں سے جھوٹ نہیں بولتا۔‘‘ ہم سب مسلمان ہیں ذرا سوچیں جب ہم اپنی عورتوں کو اکیلے بازار بھیجتے ہیں اور وہ پانچ سالہ بچے کو ساتھ ہی کیوں نہ لے جائیں تو کیا اس وقت یہ شک والا معاملہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: ((أَلَا لَا یَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِاِمْرَأَۃٍ اِلاَّ کَانَ ثَالِثُہُمَا الشَّیْطَانُ)) [2] ’’کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ الگ ہو تو تیسرا شیطان ہوتا ہے۔‘‘ کہتے ہیں کہ وہ کون سی اکیلی تھی اس کے ساتھ اس کا بھائی تھا اس کا بیٹا تھا تو محرم کی شروط میں سے ہے کہ وہ مذکر ہو اور بالغ ہو اور اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: ((لَا تُسَافِرُ الْمَرْأَۃُ اِلاَّ مَعَ ذِیْ مَحْرَمٍ۔))[3] ’’کوئی عورت اپنے محرم کے سوا سفر نہ کرے۔‘‘ اور بچے جو سن تمیز تک نہ پہنے ہوں وہ محارم نہیں بن سکتے ہیں۔ کہتے ہیں لو یہ تو کھڑا ہے وہ شہر جہاں گئی ہے ابھی آجائے گی۔ بتلاؤ کتنے نقصان اور وارداتیں اسی زعم باطل کے نتیجے میں واقع ہوئیں اور بتلاؤ اگر صحابیات کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ محارم کے ساتھ نکلیں تو پھر تمہارا ایمان کیا ان سے قوی ہے؟ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تو صحابی کو جہاد سے واپس بلا لیا اور کہاکہ اپنی عورت کو اکیلے حج کے لیے نہ بھیجو جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((لَا یَخْلُوَنَّ
[1] الترمذی ۲۵۱۸ والنسائی ۵۷۱۱۔ [2] احمد والترمذی۔ [3] البخاری ۱۸۶۲ و مسلم ۱۳۴۱۔