کتاب: عورت کا زیور پردہ - صفحہ 7
’’جب امت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی متعین کردہ راہ سے انحراف کرے تو سمجھ لیجیے کہ اس
نے اپنے اسرار زندگی کو گم کر دیا۔‘‘
تو بے پردہ عورت اس بات کو سامنے رکھ کر اس راہ سے انحراف کرے کہ پردے والیاں بھی بدکار ہوتی ہیں اس لیے پردہ فضول ہے تو بتائیں وہ جبروت کی سزا سے کیسے بچے گی۔ حالانکہ انسانی افعال احکام الٰہیہ کو منسوخ نہیں کر سکتے اور شرعی پردہ نشین بدکار ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ پردہ نشین وہ عورت بدکار ہوگی جس کی گھر کے اندر تربیت و نگہداشت نہ ہو گی اور ڈش‘ وی سی آر اس کے لیے بند کمرے میں بھی میسر ہو گا اور باہر جا کر بے پردگی کرے گی۔ یہاں سے یہ سوال بھی حل ہو گیا (ان کے قول کے مطابق) کہ اگر عورت گھر بیٹھے ہی بدکار ہو سکتی ہے جہاں اسے بمشکل بدکار مرد میسر آتا ہے تو بتائیں گھر سے نکل کر تو جو کچھ وہ کرے گی وہ بالکل عیاں ہے۔ الغرض اگر ہم مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو کیا یہ ہمارا فرض نہیں کہ ہم جانیں کہ ہمارا مذہب دین حنیف اس موضوع پر کیا درس دیتا ہے؟ کیونکہ محبت کے کھوکھلے نعرے لگانے سے محبت کا ثبوت نہیں ہوتا بلکہ محبوب کے اشاروں پر لبیک کہنا ہی اس کی محبت کو متحقق کرتا ہے چنانچہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا:
تَعْصِی الْاِلٰہَ وَاَنْتَ تَزْعُمُ حُبَّہٗ
ہَذَا لَعَمْرِیْ فِی الْقِیَاسِ شَنِیْعٌ
لَوْ کَانَ حُبُّکَ صَادِقًا لَاَطَعْتَہٗ
اِنَّ الْمُحِبَّ لِمَنْ یُحِبُّ مِطِیْعٗ
’’تو اپنے معبود کی نافر مانی بھی کرے اور محبت کا دعویدار بھی ہو یہ قیاس و عقل کے مطابق قبیح ہے۔ اگر تمہاری محبت سچی ہوتی تو تم اس کی اطاعت کرتے کیونکہ محبت اپنے محبوب مطیع و فرمانبردار ہوتا ہے‘‘… بلکہ محبت کی علامت یہ کہی جاتی کہ
لَوْ قَالَتْ مُتْ‘ مُتُّ سَمْعًا وَطَاعَۃً
وَقُلْتُ لِدَاعِی الْمَوْتِ اَھْلًا وَمَرْحَبًا
’’اے میرے محبوب! اگر تو مجھے حکم دے کہ مر جا تو میں اطاعت کرتے ہوئے مرنے کو