کتاب: عورت کا زیور پردہ - صفحہ 6
کتابچہ لکھنے کا مقصد و سبب :
اسلام ایک فطری مذہب ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایسے احکام جاری کیے ہیں تاکہ انسان بے پردگی و عریانی جیسی گمراہی (جو کہ فطری امتیاز کو گھن کی طرح کھا جاتی ہے اوراخلاقی انحطاط کا باب مستطیل کھولتی ہے) سے بچ جائے تاکہ اس کی نسل و فطرت محفوظ و مصؤن رہے۔ اور بلاشبہ جو شخص اصلی وارث بننے کا خواہش مند ہوتا ہے وہ اصلیت کو گدلا کرنے والے اسباب سے بچتا ہے جن میں بے پردگی بھی ہے کیونکہ آزاد چھوڑ دینے سے اکثر اصیل جانور دوغلے ہو جاتے ہیں‘ مثلاً عرب اور کاٹھیاواڑ کے گھوڑے عام گدھوں اور گھوڑوں کے برابر نہیں ہوتے‘ ٹینی اور اصیل مرغ کی خصلت یکساں نہیں ہوتی۔ لیکن افسوس کہ جانوروں کی نسلوں کے تحفظ کے لیے تو آئے دن پروگرام ترتیب دئیے جاتے ہیں اور عورتوں کو آزاد چھوڑ کر پردہ کرنے کو رجعت پسندی‘ جہالت و تخلف پسندی قرار دے کر یہ نعرہ لگایا جاتا ہے کہ معاشی و سماجی ترقی کے لیے صنف نازک و لطیف کو آزاد کرنا اور ہمسری کی ڈگری دینا ضروری ہے۔ حالانکہ جو چیز زیادہ مرغوب اور قیمتی ہو اس کو انسان سات تالوں میں رکھتا ہے لیکن افسوس صد افسوس! عورت کہ جس کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
((اَلدُّنْیَا کُلُّہَا مَتَاعٌ وَخَیْرُ مَتَاعِ الدُّنْیَا اَلْمَرْأَۃُ الصَّالِحَۃُ۔)) (مسلم ۶۴‘ والنسائی ۳۲‘ وابن ماجہ ۲۵)
’’دنیا ساری کی ساری زندگی ہے اور بہترین (قیمتی) سامان زندگی نیک بیوی ہے۔‘‘
کو مغربی عورتوں کی طرح مادر پدر آزاد چھوڑ دینا حماقت نہیں تو پھر کیا ہے؟ اور سرور کونینؐ کے متعین کردہ راستے سے انحراف کرکے اپنے مستقبل کو برباد کرنا نہیں تو کیا ہے؟ کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا:
تا شعار مصطفی از دست رفت
قوم را رمز حیات از دست رفت