کتاب: عورت کا زیور پردہ - صفحہ 48
جواب دے گی۔ سوچ اور فکر کر اور توبہ کر شاید پھر تمہیں موقع نہ ملے توبہ کرنے کا۔ آ ذرا تجھ کو اونچی ایڑی کی اصلیت واضح کروں۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((کَانَتِ امْرَأَۃٌ مِنْ بَنِی اِسْرَائِیْلَ قَصِیْرَۃٌ تَمْشِیْ مَعَ امْرَأَتَیْنِ طَوِیْلَتَیْنِ فَاتَّخَذَتْ رِجْلَیْنِ مِنْ خَشَبٍ وَخَاتَمًا مِنْ ذَہَبٍ مُغْلَفًا بِطِینٍ ثُمَّ حَشَّتْہُ مِسْکًا وَہُوَ أْطْیَبُ الطَّیِّبِ فَمَرَّتْ بَیْنَ الْمَرْأَتَیْنِ فَلَمْ یَعْرِفُوہَا فَقَالَتْ بِیَدِہَا ھٰکَذَا۔)) [1] ’’بنی اسرائیل کی ایک چھوٹے قد کی عورت دو لمبی عورتوں کے ساتھ چلتی تھی پھر اس نے دو پاؤں لکڑی کے (یعنی اونچی ایڑی لکڑی کی لگوا لی) لیے اور ایک سونے کی انگوٹھی لی جس پر گارے کی لیپ تھی پھر اس نے اس میں کستوری رکھی جو کہ سب سے بہتر خوشبو تھی تو دونوں عورتوں کے درمیان جب چلتی تو لوگ اس کو پہچانتے نہیں تھے تو وہ اپنے ہاتھ سے اس کو حرکت دیتی (تو خوشبو پھیل جاتی پھر اس عورت کا نام فتنہ رکھا گیا)‘‘ امام البانی رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے فائدہ کے تحت لکھتے ہیں کہ یہ حدیث ایک ظاہری تنبیہ ہے کہ فاسق عورتوں کا یہ شیوہ ہے کہ وہ ایسی چیزیں پہنتی ہیں کہ لوگوں کی نظریں ان کی طرف التفات کریں جیسا کہ (اَلنِّعَالُ الْعَالِیَۃُ الْکِعَابِ) اونچی ایڑی والی جوتیاں اوریہ یہودیوں کی اختراع ہے اس لیے مومن عورتوں کو اس سے بچنا چاہیے۔ تو اے مسلمان بہن! ذرا سوچ کہیں تو بھی تو فتنے کا لقب پسند نہیں کرتی اور یہودیوں کے طریقہ کو تقویت تو نہیں دے رہی؟ اب دیکھیں کہ یہاں زمین پر پاؤں مارنا اس لیے منع کیا گیا کہ مرد زیور کی جھنکار سے فتنے میں نہ پڑ جائیں تو بتلائیں کہ پیر کی جھنکار زیادہ فتنے والی ہے کہ چہرے کو ننگا
[1] صحیح الجامع ۴۴۶۴ والصحیحۃ ۴۸۶‘ ۹۱۱۔