کتاب: عورت کا زیور پردہ - صفحہ 46
پاؤں کے ڈھانپنے کا حکم تو دے دے اور چہرے کو چھوڑ دے جو کہ اصل فتنے کا موجب ہے کیونکہ جب کہا جاتا ہے فلاں خوبصورت ہے تو مراد اس کا چہرہ ہوتا ہے نہ کہ اس کے ناخن اور پیر۔ معلوم ہوا کہ پوچھنے اور بتانے والے کی گفتگو کا محور چہرہ ہی ہوتا ہے اور ممکن نہیں کہ حکمت پر مبنی شریعت سینہ و گردن کے پردہ کا تو حکم دے لیکن چہرہ کھلا رکھنے کی رخصت دے دے۔
۲: اگر آپ کی بات بالفرض مان بھی لیں تو بتائیں کہ صحابیات نے جو اس آیت سے فہم اور سمجھ لی ہے اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے کہ انہوں نے آیت کے نزول کے فوراً بعد اپنے چہروں کو ڈھانپ لیا تھا لباس وہ پہلے ہی پہنتی تھیں گردن اور سر کو تو وہ پہلے ہی ڈھانپتی تھی۔ بازو تو پہلے ہی ان کے ڈھانپے ہوئے تھے قدم تو ان کے پہلے ہی ڈھکے ہوتے تھے جیسا کہ عبدالرحمن بن حسان بن ثابت نے کہا تھا:
کُتِبَ الْقِتَالُ وَ الْقِتَالُ عَلَیْنَا
وَ عَلَی الْمُحْصِنَاتِ جَرُّ الذُّیُوْلِ
’’جہاد (قتال) فرض کیا گیا ہے وہ ہم پر فرض ہے اور پاک دامن عورتوں پر شلواریں (لمبی چادریں) لٹکانا ہے۔‘‘
تو بتاؤ پھر انہوں نے کس چیز کو ڈھانپا تھا؟ بلاشبہ چہرے کو ہی ڈھانپا تھا۔
۳: حج میں اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ:
((وَلَا تَنْتَقِبِ الْمَرْأَۃُ الْمُحْرِمَۃُ وَلَا تَلْبَسُ الْقَفَّازَیْنِ۔))[1]
’’عورت احرام کی حالت میں نقاب نہ پہنے اور نہ ہی دستانے پہنے۔‘‘
معلوم ہوا کہ یہ قید صرف حج و عمرہ کی حالت میں ہے۔ ان دونوں حالتوں کے علاوہ وہ نقاب بھی کرے گی اور دستانے بھی پہنے گی اور نقاب جب کرے گی تو چہرے پر ہی کرے گی نہ کہ پیروں پر کرے گی۔ حالانکہ حج میں نقاب کی ممانعت ہے لیکن صحابیات نے چہرے کو پھر بھی ننگا
[1] ابوداؤد ۱۸۳۰ وابن ماجہ ۲۹۳۵۔