کتاب: عورت کا زیور پردہ - صفحہ 44
کے اظہار کے حکم سے بعض افراد کا استثناء کرنے کا کوئی خاص فائدہ نہ رہ جاتا اور قرآن مجید نے جو لفظ بیان کیے ہیں {أَوِ التَّابِعِینَ غَیْرِ أْولِی الْاِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظُہَرُوا عَلیٰ عَوْرَاتِ النِّسَائِ} کہ وہ افراد جو صرف کھانا کھانے کی غرض سے گھروں میں رہتے ہیں (مراد نوکر ہیں) جن میں صنفی میلان ختم ہو چکا ہے‘ مردانہ اوصاف سے محروم ہوں اور وہ نابالغ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں پر مطلع نہ ہوئے ہوں ان کے سامنے مخفی زینت کو کھلا رکھنے کی اجازت دی ہے جس سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس کے علاوہ مخفی زیب و زینت کو کسی غیر محرم کے سامنے کھلا رکھنا جائز نہیں اور دوسری بات پر پردے کو واجب جو کیا گیا ہے وہ اس کی علت ہے کہ مرد عورتوں کی طرف نہ دیکھیں اور نہ فتنے میں مبتلا ہوں تو چہرہ اور ہاتھ ہی تو مجمع حسن ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر خوبصورتی اور جسم کے خد و خال اور بناوٹ کا اندازہ ہوتا ہے جس کو صرف جو غیر محرم ان بچوں اور مردانہ اوصاف سے عاری مردوں کے سامنے ظاہر کرنے کی اجازت ہے باقی کے لیے نہیں ہے۔
۳: {وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلیٰ جُیُوبِہِنَّ} ’’عورتیں اپنے گریبانوں پر دوپٹے ڈال کر رکھیں‘‘ یہاں لفظ خمر استعمال ہوا ہے جو خمار کی جمع ہے جو کہ خمر سے مشتق ہے جس کا معنی چھپانا اور ڈانپنا ہے اسی لیے شراب کو خمر کہتے ہیں کیونکہ وہ پینے والے کی عقل کو ڈھانپ دیتی ہے اور چھپا دیتی ہے اور ’’ اِخْتَمَرَتِ الْمَرْاَۃُ وَتَخَمَّرَتْ‘‘ اس وقت لغت میں بولا جاتا ہے جب عورت اپنے چہرے کو ڈھانپ لے اور چھپا لے تو خمار کہتے ہیں اس کپڑے کو جسے عورت اپنے سر‘ چہرے‘ گردن اور سینے کو ڈھانپنے کے لیے استعمال کرتی ہے تو اس میں چہرے کو شامل کیا گیا ہے جیسا