کتاب: عورت کا زیور پردہ - صفحہ 39
سے حیا کرتا ہے جس طرح کرنے کا حق ہے تو اس نے اپنے سر کو اور جو کچھ اس میں ہے اور پیٹ کو اور جس کو وہ گھیرے ہوئے ہے محفوظ کر لیا اور جو موت اور (اس کے بعد) بوسیدہ ہونے کو یاد کرے اور آخرت کا ارادہ رکھے وہ دنیا کی زندگانی کی زینت کو ترک کر دیتا ہے۔‘‘ تو با حیا انسان ایسے کاموں سے گریز کرتا ہے جس سے اس کے تشخص پر کوئی قدغن آئے‘ الغرض نظر قلبی امور کے لیے سب سے بڑی آفت ہے۔ حتیٰ کہ اس پر اجماع ہے جیسا کہ ابن الحاج فرماتے ہیں کہ: ((وَوَقَعَ الْاِجْمَاعُ عَلٰی اَنَّ النَّظْرَ اَعْظَمُ آفَۃٌ عَلَی الْقَلْبِ وَاَسْرَعُ الْاُمُوْرِ فِی خَرَابِ الدِّیْنِ وَالدُّنْیَا۔)) [1] ’’اس بات پر اجماع ہے کہ نظر دل کے لیے سب سے بڑی آفت ہے اور دین و دنیا کو خراب کرنے کے لیے سب سے زیادہ تیز ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ تمام مسلمانوں کو نظر کے فتنے سے محفوظ فرمائے۔ (آمین) چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی نظر سے بچانے کے لیے راستوں پر کھڑے ہونے اور بیٹھنے سے منع فرمایا ہے: ((اِیَّاکُمْ وَالْجُلُوْسَ عَلَی الطُّرُقَاتِ قَالُوا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! مَا لَنَا بُدَّ مِنْ مَجَالِسِنَا نَتَحَدَّثُ فِیْہَا‘ فَقَالَ: اِنْ أَبَیْتُمْ اِلَّا الْمَجْلِسَ فَأَعْطُوا الطَّرِیْقَ حَقَّہٗ‘ قَالُوا: وَمَا حَقُّہٗ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ: غَضُّ الْبَصَرِ وَکَفُّ الْاذٰی وَرَدُّ السَّلَامِ وَالَٔامْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّھْیُ عَنِ الْمُنْکَرِ۔)) [2] ’’راستوں پر بیٹھنے سے بچو تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہاکہ ہم (اپنی ضروری) باتیں کرتے ہیں اور ضرور بیٹھنا چاہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم ضرور ہی بیٹھنا چاہتے ہو تو پھر راستے کا حق ادا کر دیا کرو‘ تو صحابہ کرام نے کہا کہ اس کا حق کیا ہے؟ تو فرمایا: (۱) نظر کا جھکانا(۲) تکلیف دینے سے رک جانا (۳) سلام کا جواب دینا (۴) نیکی کا حکم کرنا (۵) اور برائی سے منع
[1] فتیاتنا والاعجاب ۶۳۔ [2] البخاری ۲۴۶۵‘ ۶۲۲۹ و مسلم ۲۱۲۱‘ وابوداؤد ۴۸۱۵۔