کتاب: عورت کا زیور پردہ - صفحہ 37
کو ترک کر دینے کا حکم ہے چہ جائیکہ ایک واضح چیز ہو‘ جو شخص شک سے بھی بچتا ہے وہ اپنے دین کو محفوظ کر لیتا ہے‘ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِنَّ الْحَلَالَ بَیِّنٌ وَالْحَرَامَ بَیِّنٌ وَبَیْنَہُمَا اُمُورٌ مُشْتَبِہَاتٌ لاَ یَعْلَمُہُنَّ کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ فَمَنِ اتَّقَیٰ الشُّبُہَاتِ فَقَدِ اسْتَبْرَأَ لِدِیْنِۃٖ وَعِرْضِہٖ وَمَنْ وَقَعَ فِی الشُّبُہَاتِ وَقَعَ فِی الحَرَامٍ کَالرَّاعِیْ یَرْعٰیِ حَوْلَ الْحِمٰی یُوشِکُ أَنْ یُّوْقَعَ فِیہِ اَلاَ وَاِنَّ لِکُلِّ مَلَکٍ حِمًی اَلاَ وَاِنَّ حِمَی اللّٰہِ مَحَارِمُہٗ أَلا وَاِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃً اِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ اَلاَ وَہِیَ الْقَلْبُ۔)) [1] ’’حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے ان دونوں کے درمیان متشابہہ امور ہیں‘ اکثر لوگ ان کو نہیں جانتے‘ پس جو شخص شبہات سے بچ جائے وہ اپنا دین اور عزت بچا لیتا ہے اور جو شبہات میں پڑ جائے وہ حرام میں واقع ہو جاتا ہے جیسا کہ بکریوں کا چرواہا چراگاہ کے ارد گرد چراتا ہے قریب ہے کہ اس میں اس کو چرانا شروع کر دے‘ خبر دار ہر بادشاہ کی چراگاہ ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں‘ خبردار جسم میں ایک لوتھڑا ہے جب وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح کام کرتا ہے اورجب وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم فاسد ہو جاتا ہے جان لو وہ ٹکڑا دل ہے۔‘‘ تو بات یہ چل رہی تھی کہ زبان کا زنا نطق ہے بات کرنا ہے (غیر محرم سے ناجائز) اور کانوں کا زنا سننا ہے اور ہاتھوں کا گناہ پکڑنا ہے (ہاتھ لگانا ہے غیر محرم کو) لیکن افسوس ہے مسلمان پر کہ صرف پیر یا بڑے ولی یا بڑے بزرگ کا لیبل لگا کر والدین اپنی بچیوں کو پیار دلوانے کے لیے پیش کرتے ہیں۔ وہ بالغ، شادی شدہ اورجوان سلام بھی کرتی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((اِنِّی لاَ أُصَافِحُ النِّسَائَ۔)) [2] ’’میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔‘‘ اور فرمایا: ((اِنِّی لَا
[1] البخاری ۲۰۵۲ ومسلم ۱۵۹۹۔ [2] صحیح الجامع ۳۵۰۹۔