کتاب: عورت کا زیور پردہ - صفحہ 33
تیر بھی اثر نہیں کرتا۔ جیسا کہ شاعر کہتا ہے:
کُلُّ الْحَوَادِثِ مَبْدَاُہَا مِنَ النَّظَرِ وَمُعْظَمُ النَّارِ مِنْ مُسْتَصْغِرِ الشَّرَرِ
کَمْ نَظْرَۃٍ فَعَلَتْ فِیْ قَلْبِ صَاحِبِہَا فِعْلَ السِّہَامِ بِلَا قَوْسٍ وَ لَا وَتَرِ
’’تمام حادثات کی ابتداء نظر سے ہی ہوتی ہے اور آگ کا بھڑکاؤ چھوٹی سی شراری سے ہی ہوتا ہے۔ کتنی ہی نظریں دیکھنے والے پر اتنا اثر کر جاتی ہیں کہ قوس و کمان سے نکلا تیر بھی اتنا اثر نہیں کرتا۔‘‘
اور حقیقت بھی یہی ہے کہ تمام برائیوں اور فتنوں کے دو ہی دروزے ہیں :
(۱) آنکھ کا نظارہ (۲) زبان کا چٹخارہ
یہی وجہ ہے کہ اسی آنکھ سے بچنے کے لیے کسی کے گھر میں داخل ہوتے ہوئے اجازت لینا مقرر کیا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
((اِنَّمَا جُعِلَ الْاِذْنُ مِنْ أَجْلِ الْبَصَرِ)) [1]
’’اجازت تو رکھی ہی نظر سے بچنے کے لیے ہے۔‘‘
اور جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اچانک نظر کے بارے میں سوال کیا :
((فَأَمَرَنِیْ أَنْ أَصْرِفَ بَصَرِیْ۔)) [2]
’’مجھے حکم دیا کہ میں اپنی نظر کو پھیر لوں۔‘‘
یعنی اچانک نظر پڑنے سے گناہ نہیں بلکہ دوبارہ دیکھنے سے ہے اسی لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا :
((لاَ تَتْبَعِ النَّظَرَۃَ النَّظَرَۃَ فَاِنَّ لَکَ الْاُوْلیٰ وَلَیْسَتْ لَکَ الْاُخْریٰ))[3]
’’نظر کو نظر کے پیچھے نہ لگاؤ (ایک مرتبہ دیکھنے کے بعد پھر دوبارہ نہ دیکھو) کیونکہ پہلی نظر تمہارے لیے ہے اور دوسری تمہارے لیے نہیں (پہلی معاف ہے‘ دوسری معاف نہیں)۔‘‘
چنانچہ جو شخص بغیر اجازت کے گھر کے اندر جھانکتا ہے‘ اس کی آنکھ پھوڑ دینا جائز ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَنْ أَطْلَعَ فِی بَیْتِ قَوْمٍ
[1] البخاری ۶۲۴۱ و مسلم ۲۱۵۶ والترمذی ۲۷۹۱۔
[2] مسلم ۲۱۵۹ وابوداؤد ۲۱۴۸ والترمذی ۲۷۷۶ والنسائی ۹۲۳۳۔
[3] ابوداؤد ۲۱۴۹ والترمذی ۲۷۷۷۔