کتاب: عورت کا زیور پردہ - صفحہ 31
لے کر جیسا کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم حیض والیوں اور نوجوان بچیوں کو عیدالفطر اور عیدالاضحی میں لے کر جائیں۔ حیض والیاں نماز سے تو الگ رہیں لیکن مسلمانوں کی دعا میں شمولیت ضرور کریں۔ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ تعالیٰ کے رسول!
((وَ اِحْدَانَا لاَ یَکُوْنُ لَہَا جِلْبَابٌ؟ قَالَ لِتُلْبِسَہَا أُخْتُہَا مِنْ جِلْبَابِہَا۔)) [1]
’’اگر ہم میں سے کسی کے پاس جلباب نہ ہو؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو اس کی بہن اپنی چادر دے دے (یعنی وہ مستعار چادر لے لیں لیکن عید کے لیے بھی ننگی نہ جائیں)‘‘
تو اس سے معلوم ہوا کہ صحابیات کو یہ فہم تھا اور اس آیت سے انہوں نے یہی سمجھا تھا کہ بغیر جلباب کے باہر نہیں نکل سکتیں تب ہی تو سوال کیا۔ یہی وہ پاکدامن عورتیں تھیں جن کو بیماری ہو‘ تندرستی ہو‘ اس حکم کا فکر رہتا تھا اور وہ جنت کی وارث بن گئیں جیسا کہ عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ کیا میں تجھے جنتی عورت نہ دکھلاؤں؟ میں نے کہا کیوں نہیں؟ فرمایا کہ یہ عورت (کالے رنگ کی) اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئی اور عرض کرنے لگی کہ مجھ پر مرگی کا دورہ پڑتا ہے اور میں بے پردہ ہو جاتی ہوں آپ اللہ تعالیٰ سے میرے حق میں دعا فرمائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
((اِنْ شِئْتِ صَبَرْتِ وَلَکِ الْجَنَّۃُ وَاِنْ شِئْتِ دَعَوْتُ اللّٰہَ أَنْ یُّعَافِیْکِ۔))
’’چاہو تو صبر کر لو اور تمہیں جنت مل جائے گی اور چاہو تو تمہارے حق میں اللہ تعالیٰ سے دعا کر دیتا ہوں کہ وہ تم کو اس مرض سے نجات دے دے۔‘‘
اس نے کہا کہ میں صبر کر لیتی ہوں۔ پھر کہنے لگی کہ میں بے پردہ ہو جاتی ہوں اس بارے میں دعا کر دیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملے میں عورت کے حق میں دعا فرما دی۔[2]
دیکھیں جنت کی بشارت مل جانے کے بعد بھی بیماری پر صبر کرنے کا کہنے کے باوجود بے
[1] البخاری ۹۷۴ و مسلم ۲۰۵۳۔
[2] البخاری ۵۳۲۸ ومسلم ۳۵۷۶۔