کتاب: عورت کا زیور پردہ - صفحہ 30
محمد بن کعب القرظی فرماتے ہیں کہ ’’منافقین کا ٹولہ مومن عورتوں کو تکلیف پہنچاتا لیکن جب روکا جاتا تو وہ کہتا کُنْتُ أَحْسِبُہَا أَمَۃً ’’میں نے سمجھا کہ شاید لونڈی ہے‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت جلباب کو نازل کر دیا اور حکم دیا کہ مسلمان عورتیں جلباب لے لیں اور صرف ایک آنکھ ننگی رکھیں اور لونڈیوں کی مخالفت کریں۔‘‘[1] لیکن افسوس کہ آج جو عورت امت محمدیہ میں سے اس شریف زادی کا وصف اپنائے اسے رجعت پسند‘ پینڈو اور خانقاہی عورت کا لقب دیا جاتا ہے اور جو مغربی عورتوں کی طرح مادر پدر آزاد‘ سڑکوں و بازاروں میں دندناتی پھرے اس کو ’’ماڈل گرل‘‘ اور زمانے کی روایات (Tradition) کے عین مطابق تصور کیا جاتا ہے۔ پھر یہی ’’ماڈل گرل‘‘ کے خواب دیکھنے والے اس کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے لیے یا پھر یونیورسٹیوں میں گھومنے کی کھلی اجازت دے دیتے ہیں اور وہ موبائل اور گاڑی لے کر اپنا ایمان بیچتی پھرتی ہے یا پھر گھر میں اس کے لیے مرد ٹیوٹر رکھ لیا جاتا ہے جو آتا استاد بن کے ہے اور جاتا داماد بن کر (العبرات للمنفلوطی)تو انہیں دنیاوی تعلیم کے پجاریوں کے بارے میں کہ جن کے گھر والے جب گل کھلاتے ہیں تو اکبر الٰہ آبادی بول اٹھتا ہے حسرت بہت ترقیٔ دختر تھی انہیں پردہ جو اٹھ گیا تو وہ آخر نکل گئی یہ تھا بے پردگی کا نتیجہ‘ جبکہ مسلمان عورت کا شیوہ تو یہ تھا کہ جب وہ باہر نکلتی تو چادر
[1] تفسیر فتح القدیر ۴/۴۰۵۔