کتاب: عورت کا زیور پردہ - صفحہ 29
مطابق ایک آنکھ کھلی رکھنے کا جواز بھی ایک خاص مقصد کے لیے ہے اور وہ راستہ دیکھنے کی ضرورت ہے چنانچہ جب وہ باہر نہ نکلے اور نہ ہی راستہ دیکھنے کی ضرورت ہو تو پھر غیر محرموں کے سامنے ایک آنکھ سے بھی پردہ ہٹانے کی کوئی وجہ نہیں۔ صحابی کی تفسیر حجت ہے بلکہ علماء کے ہاں مرفوع حدیث کے حکم میں ہے اور ’’الصحابۃ کلھم عدول‘‘ ’’صحابہ سارے ہی عادل ہیں کیونکہ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سند ملی ہوئی ہے :
{رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ} (المجادلۃ:۲۲)
’’صحابہ پر اللہ تعالیٰ راضی ہو گئے اور وہ اللہ تعالیٰ پر راضی ہو گئے۔‘‘
اور مذکورہ تفسیر اس امت کے مفسر قرآن ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی تھی:
((اَللّٰہُمَّ فَقِّھْہُ فِی الدِّینِ وَعَلِّمْہُ الْحِکْمَۃَ۔)) [1]
’’اے اللہ! اس کو دین کا فہم دے اور اسے حکمت سکھلا دے۔‘‘
محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے عبیدہ السلمانی (تلمیذ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ) سے اللہ تعالیٰ کے فرمان {یُدْنِینَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ} کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اپنا چہرہ اور سر ڈھانپ لیا اور اپنی صرف بائیں آنکھ ننگی کی (تفسیر ابن کثیر ۳/۶۸۴) علامہ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’یہ آیت حجاب ہے جو کہ تمام عورتوں کے لیے مشترک حکم ہے اوراس میں سر اور منہ کو ڈھانپنے کا وجوب بالکل واضح ہے کیونکہ اسی آیت سے صحابیات نے بھی یوں ہی چہرے اور سر کو ڈھانپنا سمجھا‘‘ چنانچہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آیت {یُدْنِینَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ} نازل ہوئی تو انصاری عورتیں اپنے گھروں سے اس سکون اور اطمینان کے ساتھ نکلتیں کہ گویا ان کے سروں پر پرندے ہیں اور انہوں نے سیاہ رنگ کی چادریں لپیٹ رکھی ہوتی تھیں۔ [2]
[1] البخاری ۱۴۳‘۳۷۵۶۔
[2] تفسیر ابن کثیر ۳/۶۸۴‘ وفتح القدیر ۴/۴۰۵ نقلاً عن عبدالرزاق فی المصنف۔