کتاب: عورت کا زیور پردہ - صفحہ 28
اجازت لینا بھی ان کے ساتھ خاص ہے اب اجازت لینے کی ضرورت نہیں‘ ہر گھر میں بغیر اجازت کے گھس جانا چاہیے لیکن اس بات کا کوئی بھی قائل نہیں۔ جب مومن عورتیں اس بات کی عادی ہو گئیں کہ بات چیت‘ لین دین اور گھر میں بیٹھنا یہ ازواج مطہرات کی پیروی ہی نہیں بلکہ رضائے الٰہی کا سبب ہے تب سب کو اللہ جل شانہ نے اپنے حکم کا مخاطب بنایا: {یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلِّ لِاَزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَ نِسَآئِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ ذٰلِکَ اَدْنٰی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا} (الاحزاب:۵۹) ’’اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیں اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر ستائی نہ جائیں گی اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ جلباب قمیص یا چادر کو کہتے ہیں اس کی جمع جلابیب ہے یہ جلبہ سے ہے اور جلبہ کہتے ہیں تہ بہ تہ پتھر جن میں جانوروں کے لیے راستہ باقی نہ رہے‘ سبز کانٹے دار درخت‘ بادل کا ایک ٹکڑا‘ پالان پر لگایا جانے والا چمڑا‘ الغرض کسی چیز کو محفوظ کرنے کے لیے جن دواعی کی ضرورت ہوتی ہے وہ سارے مفہوم جلباب میں پنہاں ہیں اور خصوصاً جب یُدْنِیْنَ کا لفظ جو کہ ’’الِادْنَاء‘‘ سے ہے متعدی ہو ’حرف علیٰ‘ کے ساتھ تو اس کا معنی ’’الارخاء‘‘ ہوتا ہے اور ارخاء (لٹکانا)َ اوپر سے نیچے کی طرف ہوتا ہے تو گویا جلباب سے مراد وہ کھلی چادر ہے جو سر سے نیچے کو لٹکائی جائے جس سے چہرے سمیت سارا بدن ڈھک جائے۔ چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں ترجمان القرآن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ’’مومنوں کی عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ جب کسی ضرورت کے لیے اپنے گھروں سے نکلیں تو سر کے اوپر سے اپنی چادروں کو لٹکا کر اپنے چہروں کو ڈھانپ لیا کریں اور صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں۔‘‘ [1] تو اس صحابی رسول کے قول کے
[1] تفسیر ابن کثیر ۳/۶۸۴ و فتح القدیر ۴/۴۰۵۔