کتاب: عورت کا زیور پردہ - صفحہ 27
ہے وہ حیا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ حق کے بیان میں کوئی حیاء نہیں کرتے۔ جب تم نبی کی بیویوں سے کوئی چیز طلب کرو تو پردے کے پیچھے سے طلب کیا کرو۔ یہ تمہارے اور ان کے دلوں کے لیے کامل پاکیزگی ہے۔ تمہارے لیے یہ جائز نہیں کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دو اور نہ ہی تمہارے لیے حلال ہے کہ تم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان کی بیویوں سے کبھی بھی نکاح کرو۔ بے شک یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑا گناہ ہے۔ تم کسی چیز کو ظاہر کرو یا مخفی رکھو اللہ تعالیٰ تو ہر چیز کو بخوبی جانتے ہیں۔ ان عورتوں پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ اپنے باپوں، اپنے بیٹوں، بھائیوں، بھتیجوں، بھانجوں، اپنی (میل جول کی) عورتوں اور ملکیت کے ماتحتوں (لونڈی‘ غلام) کے سامنے ہوں اور (اے عورتو!) اللہ تعالیٰ سے ڈرتی رہو۔ اللہ تعالیٰ یقینا ہر چیز پر گواہ (شاہد) ہے۔‘‘
تو ان آیات مبارکہ میں گو مخاطب مخصوص ہیں لیکن حکم عام ہے کیونکہ قاعدہ یہ ہے کہ
((اَلْعِبْرَۃُ بِعُمُوْمِ اللَّفْظِ لَا بِخُصُوْصِ السَّبَبِ۔))
’’اعتبار لفظ کے عموم کا ہوتا ہے نہ کہ خاص سبب کا۔‘‘
یہاں خطاب عام ہے تمام مسلمان عورتوں کے لیے کیونکہ خطاب کا مقصد و غرض و غایت نفسانی خواہش بد سے حفاظت تامہ ہے اور نفسانی خواہش بد سے حفاظت تامہ ہر مسلمان کی ضرورت ہے۔ خواص کو اس لیے مخاطب فرمایا تاکہ ان کے عمل سے عامۃ المسلمین میں آگاہی اور شوق اتباع پیدا ہو جب یہ آیت نازل ہوئی تو ازواج مطہرات اور مسلمان عورتوں نے اپنے بدن سر سے پاؤں تک چھپا لیے اور اس زینت کو بھی چھپا لیا جو کسبی تھی (یعنی خود حاصل کی ہوئی جو فطرت کے علاوہ ہو)۔ یہاں اگر کوئی اعتراض کرے کہ یہ پردہ تو نبی کی بیویوں کے ساتھ خاص ہے تو اس سے یہی کہا جائے گا کہ خطاب مومنین کو ہے {یٰأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا} اور آگے جا کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {ونساء المومنین} تو مراد تمام مسلمان ہیں اگر یہ نبی کی بیویوں کے ساتھ خاص کر دیں تو لازم آئے گا کہ