کتاب: عورت کا لباس - صفحہ 28
جوان اورخوبصورت ہونا باعثِ فتنہ ہوسکتاہے۔ (کوئی یوں کہتاہے)جب زمانہ انتہائی بگاڑ اور فسادکاشکارہوجائے اور فاسق وفاجر لوگوں کی بہتات ہوجائے توپھر چہرہ کھلارکھنا حرام قراردیاجائے گا۔ (کوئی یوں کہتاہے)اگر چہرہ کھلارکھنے سے حسن کی نمائش مقصود ہو تو پھر اسے حرام قرار دیاجائے(ورنہ نہیں) (کوئی یوں کہتاہے)لغوی اعتبار سے جو چہرے کی حدود ہیں ،ان کے علاوہ کسی شیٔ کو کسی صورت کھلارکھنا جائز نہیں ہے۔ چنانچہ ابن رسلان نے عورتوں کے کھلے چہرے کے ساتھ باہر نکلنے کے ناجائز ہونے پر مسلمانوں کا اجماع نقل فرمایاہے،بالخصوص اس وقت جب معاشرہ میں فاسقوں اور فاجروں کی کثرت ہوجائے۔[1] میں کہتاہوں:ایک عقلمند اگر ان اتفافی امور پر ہی غورکرلے،پھر فی زمانہ عورتوں کے کئے دھرے پر بھی نگاہ ڈالے،تو وہ لازماً اسی نتیجہ پر پہنچے گا کہ آج کے دور میں عورت کا چہرے کو ڈھانپے رکھنا ہی ایک امرِ متعین ہے؛کیونکہ ان شروط کا تقید کرنے والی خواتین کی تعداد نہ ہونے کے برابرہے،اور شرعی احکام میں اغلبیت اور اعمیت کا اعتبارہوتا ہے نہ کہ ندرت وقلت کا،بلکہ نادر پربھی
[1] نیل الأوطار۶؍۲۴۵