کتاب: عورت کا لباس - صفحہ 21
دوسری وجہ:ابوبکر بن نافع اپنے والد نافع سے مرسل بیان کرتے ہیں، اور یہ راوی صدوق ہے،اس کی روایت کی مزیدتفصیل آگے آئے گی۔ تیسری وجہ:عبید اللہ بن عمریہ ثقہ اورحافظ ہیں اور انہوں نے موصولا بیان کیا ہے۔احمد (۶؍۲۹۳،۳۱۵) ابوداؤد(۴۱۱۸) النسائی(۵۳۳۹)ابن ماجہ(۳۵۸۰) ابن ابی شیبہ (۱۲؍۵۱۹)طبرانی(۲۳؍ ۳۸۴) الشعب للبیقہی(۶۱۴۲) عبیداللہ بن عمر کی دیگررواۃ نے شیخ نافع میں مخالفت کی ہے۔ چنانچہ وہ یوں روایت کرتے ہیں:عن نافع عن سلیمان بن یسار عن ام سلمۃ۔لیکن یہ اختلاف مضر نہیں ہے، کیونکہ سند جہاں بھی گھومے پھرے وہ ثقہ راوی پر ہی گھومتی ہے،کیونکہ سلیمان بن یسار اور صفیہ بنت ابی عبید دونوں ثقہ ہیں۔اور یہ بھی احتمال ہے کہ نافع نے ان دونوں سے روایت کی ہو۔کیونکہ دونوں طریق نافع سے ثابت ہیں۔البتہ ترجیح کے پہلوکواختیارکریں تو اکثرکی روایت اولیٰ ہے۔ چوتھی وجہ:ابن ابی کثیر، یہ ثقہ اور مشہور راوی ہیں اور انہوں نے ام سلمۃ کے ذکر کے ساتھ اس حدیث کو موصولا بیان کیا ہے۔لیکن یہ سند منقطع ہے کہ انہوں نے ام سلمۃ اور نافع کے درمیان واسطے کو حذف کردیا ہے۔النسائی(۵۳۳۷)بطریق نافع عن ام سلمۃ ،البتہ اکثر کی روایت اولیٰ ہے ،اورانہوں نے زیادہ بیان کیا ہےالبتہ ن کی زیادت مقبول ہے کیونکہ اس زیادت پریہ سب مجتمع ہیں۔ پانچویں وجہ:محمد بن عجلان،یہ صدوق ہے،البتہ اس کے اوہام بھی ہیں،اس نے نافع عن عبداللہ بن عمر أن ام سلمۃ ...کے طریق سے روایت کیا ہے۔ابن عبدالبر نے التمہید(۲۴؍۱۴۸)میں ابن لہیہ کے طریق سے اس سند کوبیان کیا ہےلیکن یہ خطاہے جیسا کہ خود ابن عبدالبرنے اس خطاکی طرف نشاندہی کی ہے۔کیونکہ محمد بن عجلان سے روایت کرنے والا ابن لہیہ ہے اور وہ قابل حجت نہیں، اور یہ کہ یہ سند گزشتہ تمام روایات کے مخالف ہے،اور یہ کہ دیگر رواۃ نے ابن لہیہ کی اس سند میں مخالفت کی ہےاور وہ اکثر ہونے اور زیادتِ ضبط کی بنیاد پر اس پر متقدم ہیں۔ تنبیہات:(۱) پیچھے گزرچکاہے کہ ابوبکر بن نافع نے اس حدیث کو عن نافع عن صفیہ مرسلا بیان کیا۔