کتاب: عورت کا لباس - صفحہ 163
ہوں،یہ بات کسی اہل علم نے نہیں کہی،بلکہ اس کامعنی یہ ہے ایک عورت اگر اپنا کشادہ،لمبا اورڈھیلاڈھالا لباس زیب تن کیے ہواور عورتوں کے بیچ موجود ہو اور کسی وجہ سے اس کے جسم کے کسی حصے مثلاً:پنڈلی،یاسینے وغیرہ سے کپڑا سرک جائے تو وہ گنہگار نہیں ہوگی۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ مزیدفرماتے ہیں: کیا اس بات میں کسی قسم کی کوئی معقولیت نظر آتی ہے کہ عورت،دیگرعورتوں سے ملنے جائے اور اس کےجسم پر صرف اتنا لباس ہوجو اس کے ناف سے گھٹنے تک کے حصے کوڈھانپنے والاہو؟ یہ بات کفار کے معاشرہ میں تو ہوسکتی ہے لیکن کسی مسلمان اہل علم نے ہرگز نہیں کہی۔[1] خلاصہ کلام یہ ہوا کہ لباس اور چیز ہے اور ستر کودیکھنا دوسری چیز۔ لباس میں امرمشروع یہ ہے کہ عورت،عورتوں کی موجودگی میں ایسا لباس پہنے ہو جو ہاتھ کی ہتھیلی سے لیکر پاؤں کے ٹخنے تک کے حصے کو ڈھانپے ہوئے ہو، یہی لباسِ مشروع ہے۔ لیکن اگر عورت کوکسی ضرورت یاکام کاج کی وجہ سے اپنے لباس کو گھٹنے تک اٹھانا پڑتا ہے ،تو یہ محض اس ضرورت کی بناء پر جائز ہوگا،اسی طرح اگر اپنی
[1] مجموع فتاویٰ ورسائل الشیخ ابن عثیمین۱۲؍۲۶۷-۲۶۸