کتاب: عورت کا لباس - صفحہ 161
قصداً وعمداً اس قسم کے لباس پہنے،چنانچہ اگر فقہاء نے عورت کے ستر کے تعلق سے مذکورہ قول اختیار کیا ہے،تو اس کامعنی یہ نہیںکہ ایک نوجوان لڑکی زینت وجمال کی خاطر، قصداً وارادۃً اپنی عورتوں یا محرم مردوں کی موجودگی میں اپنی ناف سے اوپر اور گھٹنے سے نیچے کے حصوں کواس بناء پر کہ یہ(فقہاء کے قول کے مطابق) ستر شمار نہیں ہوتے، ظاہرکرتی پھرے۔ پھر اس سے یہ کہاںلازم آتاہے کہ ایسا لباس پہننے والی خاتون کو عمداً دیکھا جائے،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی قول سے لازم آنے والی چیز قول نہیں ہوتی،اور یہ تو لازم بھی نہیں آرہا۔ فقہاء کاکہنا ہے کہ عورت تمام کی تمام سترہے،سوائے نماز کے اندر اس کے چہرے کے،اس سے فقہاء کی مراد یہ ہے کہ جب اجنبی مرد نہ ہوں،(اجنبی مردوں کی موجودگی میں نماز کے اندر بھی چہرہ ڈھانپ کررکھے گی) فقہاء نے مردوں کے ستر کی حد بیان کرتے ہوئے فرمایاہے:مرد کاستر ناف سے گھٹنے تک ہے ۔(توکیا اس سے یہ لازم آتا ہے کہ خواتین، مردوں کو ناف سے اوپر اور گھٹنوں سے نیچے دیکھ سکتی ہیں) بعض فقہاء جن میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بھی شامل ہیں یہ صراحت فرماتے ہیں کہ عورت کسی مرد کے جسم کوصرف اتنا ہی دیکھ سکتی ہے جو عام طور پہ